سوال

میزان بنک مشارکت پر جو گھر بیچتے ہیں ،اس پر فتویٰ درکار ہے ۔تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

سارے بینک ہی یہ کام کر رہے ہیں۔مکان کی تعمیر کے لئے پیسے دیتے ہیں، اور تعمیر انسان نے خود کروانی ہوتی ہے۔جب مکان کی تعمیر مکمل ہوجاتى ہے ،تو پھر مارکیٹ ویلیو کے مطابق اس کا کرایہ طے کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر 20 ہزار روپے اس کاہر ماہ کا کرایہ طے پاتا ہے۔تو وہ کہتے ہیں بیس ہزار روپے میں سے دس ہزار ہمیں دیں۔ دس ہزارآپ کا ہے، کیونکہ آپ نے محنت مشقت کر کے اس مکان کو تعمیر کیا ہے ، گویا یہ مکان ہم دونوں کا مشترکہ ہے۔ لہذا کرایہ بھی آدھا آدھا تقسیم ہوگا۔

جب تک مکان کی قسطیں، یعنی بینک سے لیے گئے، قرض کی قسطیں ادا نہیں  ہوجاتیں، اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔گویا جو قرض ديا  ہوا ہے، اس پر ہر ماہ کرائے کے نام پر اضافی رقم وصول کی جاتی ہے۔ جو کہ  سود ہی  ہے۔نام کی تبدیلی سے اصل حقیقت نہیں بدل سکتی۔اگر ہم خنزیر کا نام بکرارکھ لیں گے،  تو وہ خنزیر ہی رہے گا۔ لہذا اس سے اجتناب ضروری ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الرؤف بن  عبد الحنان حفظہ اللہ