سوال

میرے والد محترم تقریبا  پانچ سال قبل وفات پا چکے ہیں ،فوت ہونے سے پہلے انہوں نے جائیداد کا کافی سارا حصہ اپنے بیٹوں کے نام کروا دیا تھا ،تاکہ وفات کے بعد جائیداد بیٹیوں کے نام منتقل نہ ہوجائے۔والد صاحب کی وفات کے بعد میں نے اپنی بہنوں سے فرداً فرداً  یہ درخواست کی کہ ابو جی اپنی زندگی میں یہ بہت بڑی غلطی کر گئے ہیں، لہذا آپ ابو کو بھی معاف کردو، اور ہمیں بھی معاف کردو  ۔

یاد رہے کہ میں نے صرف معاف کروانے کا مطالبہ کیا تھا،  یہ نہیں کہا تھا کہ چاہو تو جائیداد لے لوچاہو تو معاف کردو۔جیسا کہ اکثر ہمارے معاشرے میں ہوتا ہے کہ بہنیں معاف کر دیتی ہیں، انہوں نے بھی معاف کر دیا۔ اب میں یہ بھی نہیں جانتا کہ انہوں نے دل کی خوشی کیساتھ معاف کیا تھا ،یا دل پر پتھر رکھ کر معاف کیا تھا۔

بحرحال زبانی کلامی سب نے معاف کر دیا تھا،  ہاں ان بہنوں میں سے کچھ کی دلی خواہش تھی، کہ انہیں وراثت مل جائے۔اب پوچھنا یہ تھا کہ کیا اب ان کے معاف کر دینے سے اخروی عذاب سے ہماری جان چھوٹ گئی یا ابھی بھی بوجھ باقی ہے ۔یاد رہے کہ وہ جائیداد میرے والد کو وراثت میں نہیں ملی تھی ،بلکہ میرے  دو بھائیوں اور والد صاحب نے اکٹھے مل کر محنت کرکے بنائی تھی۔ ان کا باہم پارٹنر شپ والا کوئی معاہدہ بھی نہیں تھا ۔میں اس وقت چھوٹا تھا اور سکول پڑھتا تھا۔

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

اگر والد صاحب نے صرف بیٹوں کے حق میں وصیت کی ہے۔ تو ایسی صورت میں بھی اس جائيداد میں سبھی ورثاء کا حق ہوگا۔ صرف بیٹوں کا اس پر قابض ہونا اور بیٹیوں کو محروم کر دینا بڑا ظلم اور سخت گناہ ہے۔ اور بیٹیوں کو اپنے حق کے مطالبے کا اختیار حاصل ہے۔  بیٹوں کو چاہیے کہ وہ والد کا ترکہ سبھی موجودہ وارثین میں حسب ِحصصِ شرعیہ تقسیم کریں تاکہ آخرت کی جوابدہی سے محفوظ رہ سکیں۔

قرآن مجید میں ہے:

{فَمَنْ خَافَ مِنْ مُوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ} [البقرة: 182]

’جو شخص وصیت کرنے والے کی جانب داری، یا گناہ کی وصیت کر دینے سے ڈرے، پس ان میں آپس میں اصلاح کر دے ،تو اس پر گناہ نہیں، بیشک اللہ تعالی نہایت  بخشنے والا مہربان ہے‘۔

اس آيت سے پتہ چلا کہ وصیت اس صورت میں پوری کرنی چاہیے۔ جب کہ وہ وصیت کسی کے لیے نقصان دہ نہ ہو۔ ایک اور جگہ اللہ تعالی كا ارشاد ہے:

 {وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ ۚ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا} ‎[سورةالنساء:7]

’ جو مال ماں باپ اور عزیزواقارب چھوڑ کر جائیں، خواه وه مال کم ہو یا زیاده ،اس میں عورتوں کا بھی حصہ مقرر کیا ہوا ہے‘۔

حدیثِ مبارک میں آتا ہے، جیسا کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

«أَنَّ رَجُلًا أَعْتَقَ سِتَّةَ مَمْلُوكِينَ لَهُ عِنْدَ مَوْتِهِ، لَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ غَيْرَهُمْ، فَدَعَا بِهِمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَزَّأَهُمْ أَثْلَاثًا، ثُمَّ أَقْرَعَ بَيْنَهُمْ، فَأَعْتَقَ اثْنَيْنِ، وَأَرَقَّ أَرْبَعَةً، وَقَالَ لَهُ قَوْلًا شَدِيدًا»[صحيح مسلم:1668]

ایک آدمی نے  وفات کے وقت اپنے  چھے غلاموں کو آزاد کردیا، اسکے علاوہ اس کا کوئی مال نہیں تھا، اللہ کے ’رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا، تو آپ نے انہیں تین حصوں میں تقسیم کیا، پھر قرعہ اندازی کرکے، دو کو آزاد کردیا، اور چار کو  باقی رکھا، اور اس شخص کے بارے میں سخت الفاظ ادا کیے‘۔

بعض روایات میں مزید یہ الفاظ بھی ہیں:

“فَجَاءَ وَرَثَتُهُ مِنَ الْأَعْرَابِ، فَأَخْبَرُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا صَنَعَ، قَالَ: ” أَوَفَعَلَ ذَلِكَ؟ قَالَ لَوْ عَلِمْنَا إِنْ شَاءَ اللَّهُ مَا صَلَّيْنَا عَلَيْهِ”.[مسند أحمد:20009] «لَوْ شَهِدْتُهُ قَبْلَ أَنْ يُدْفَنَ لَمْ يُدْفَنْ فِي مَقَابِرِ الْمُسْلِمِينَ»[سنن أبي داود :3960]

’ دیہات میں موجود اس کے ورثا نے آکر اس کی شکایت کی، تو  رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر مجھے علم ہوجاتا، تو میں  اس کا جنازہ ہی  نہ پڑھاتا‘۔’اوراسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کیا جاتا‘۔

اس بات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے، کہ  حقوق العباد کا معاملہ کتنا سنگین ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ والد صاحب نے زیادتی کی ہے کہ ساری جائیداد بیٹوں کے نام کروا گیا۔ پھر کم ازکم  بیٹوں کو چاہیے تھا کہ وہ اس غلطى کا ازالہ کرتے۔لیکن وہ بھی بجائے حصہ دینے کے ان سے معافی تلافی کروانے کے درپے ہیں۔ باپ کو تو معاف کر دینا سمجھ میں آتا ہے کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہا، لیکن بیٹوں کی معافی صرف اس صورت میں ہو سکتی ہے، کہ جو ان کو ظلم پر مبنی جائداد ملی ہے۔ اس میں بہنوں کا جتنا حصہ بنتا ہے ان کو دے دیں۔ بلکہ جتنا اب تک ان لوگوں نے فائدہ اٹھایا ہے،اس فائدے سے بھی بقدر حصہ ان کو دے دیا جائے ۔

قطع نظر اس کے کہ وہ جائیداد ان کے باپ نے کمائی ہے یا بیٹے بھی اس کمائی میں شامل ہیں۔ کیونکہ باپ کے ساتھ ملکر بیٹوں کی کمائی بھی  باپ ہی کی کمائی ہوتی ہے۔ اور باپ کے مرنے کے بعد وہ جائيداد اس کے ورثاء کی ہے، اس میں بیٹے بیٹیاں سب حقدار ہیں۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف  سندھو  حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ