سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ کے بارے میں کہ ہم آپس میں دو بھائی اور چھ بہنیں اپنے والدین کی عینی اولاد ہیں اور زندہ وسلامت ہیں۔اب ہم اپنے والد اور والدہ کی وراثت کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ہمارے بھائی ہم سے کئی گنا غریب ہیں،ہم تمام بہنیں اپنے والدین کی وراثت اپنے بھائیوں کو برابر تحفتایا بخشش کرنا چاہتی ہیں۔لیکن کچھ علماء سے ہم نے سنا ہے کہ وراثت اس طرح ضروری ہے جس طرح نماز اور روزہ کی ادائیگی،چاہے آگے کوئی غریب ہو یا امیر اگر آپ گفٹ کریں گی تو اپنی اولاد کا حق ماریں گی اور عنداللہ قابل مؤاخذہ ہوں گی ہاں اپنے بھائیوں کی امداد اپنے دوسرے ترکہ سے کردیں لیکن وراثت ضرور لیں چاہے قلیل مقدار میں ہی کیوں نہ ہو۔کچھ علماء سے یہ بھی سنا ہے کہ وراثت میں قلیل میں دے سکتی ہیں مثلااگر بھائی رہائش سے محروم ہیں یا  رہائشی جگہ کم ہے تو بقدر دے سکتی ہیں لیکن سالم نہیں۔اب بروئے قرآن وحدیث راہنمائی مقصود ہے کہ کیا ہم بھائیوں کو تمام وراثت مذکور گفٹ کر سکتی ہیں یا نہیں؟ یا بقدر دےسکتی ہیں یا نہیں؟ یا بالکل کم قیمت پر دے دیں یا نہیں؟ لیکن یاد رہے کہ ہم سسرال والوں یا اپنی محنت کی وجہ سے ہر طرح سے خوشحال اور متمول ہیں یعنی والدیں کی وراثت کو گفٹ کرکے بھی ہم تمام بہنیں اپنے بھائیوں سے پانچ سے دس گنا تقریبا امیر ہیں۔

جائیداد کی تفصیل:دو عدد مکان سکنی رقبہ تقریبا ساڑھے تیرہ مرلے مالیت تقریبا ستائیس لاکھ روپے فی مکان۔

دکانات:متفرق مالیتی بیس لاکھ روپے

کل مالیت: چہترلاکھ روپے

السائلات: دختران حاجی عبدالجبار مرحوم

ہاجرہ بشیر،عطیہ بی بی، رابعہ بی بی،مریم بی بی،زاہدہ بی بی،شاہدہ بی بی

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

  • والدین کی وفات کے بعد یہ خواتین وراثت کی حقدار بن چکی ہیں، اور اگر وہ اپنا حصہ برضا و رغبت کسی کو دینا چاہیں، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
  • لیکن دیکھنے میں آیا کہ عموما بہنیں پریشر اور دباؤ میں آکر یا شرم کے مارے اپنا حصہ لینے سے ہچکچاتی ہیں، لہذا ہمارا موقف یہ ہے کہ جس وراثت کی وہ حقدار ہیں، ان کے حصے انہیں دے دیے جائیں، پھر بعد میں اگر واقعتا وہ کسی کو اپنا حصہ دینے کے لیے رضامند ہیں، تو وہ  دے سکتی ہیں۔
  • یہ بات درست نہیں کہ یہ خواتین اپنا حصہ کسی کو دے نہیں سکتیں، کہ اس سے ان کی اولاد کی حق تلفی ہوگی۔ یہ استدلال درست نہیں، کیونکہ اس وقت وراثت کی مالک وہ خواتین ہیں، نہ کہ ان کی اولاد۔ ان کی اولاد کا حق تبھی بنے گا، جب یہ خواتین فوت ہوں گی۔ جب تک یہ خواتین زندہ ہیں، انہیں اختیار ہے کہ وہ اپنا حصہ کسی اور کو دے دیں، اولاد کا اس میں کوئی حق نہیں کہ اسے اولاد کی حق تلفی سمجھا جائے۔
  • ورثا میں اگر بیٹے اور بیٹیاں ہیں، جیسا کہ سوال سے واضح ہورہا ہے، تو  جتنے بھائی اور بہنیں ہیں، مال کے اتنے حصے بنالیے جائیں، اس طرح کہ ہر بھائی کے لیے دو حصے ہوں گے اور ہر بہن کے لیے ایک۔ صورت مسؤلہ میں سائلین دو بھائی اور چھے بہنیں ہیں، تو  کل مال (چہتر لاکھ) کو دس پر تقسیم کیا جائےگا، اور ہر بھائی کو چودہ لاکھ اسی ہزار اور ہر بہن کوسات لاکھ چالیس ہزار روپے ملیں گے۔

هذا ما عندنا والله أعلم بالصواب

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ  (رئیس اللجنۃ)

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور حافظ محمد اسحاق زاہد حفظہ اللہ