سوال

اگر کوئی لڑکا زرعی ترقیاتی بینک میں ملازمت کرتا ہو ،مطلب اس کا تعلق کمپیوٹر کے کام سے ہو اگر ایسے لڑکے کا رشتہ آئے تو کیا کرنا چاہیے؟

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

رزق حلال انسان کی معاشرتی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔اور رزق حرام اس کی عبادت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ جیسا کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:

“إنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إلَّا طَيِّبًا، وَإِنَّ اللَّهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ فَقَالَ تَعَالَى:”يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنْ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا”، وَقَالَ تَعَالَى: “يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ” ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ يَمُدُّ يَدَيْهِ إلَى السَّمَاءِ: يَا رَبِّ! يَا رَبِّ! وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ، وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ، وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ، وَغُذِّيَ بِالْحَرَامِ، فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لَه”. [مسلم: 1015]

’بے شک اللہ تعا لیٰ پا ک ہے۔  اور پا ک (مال) کے سوا ( کوئی مال) قبول نہیں کرتا۔  اللہ نے مومنوں کو بھی اسی بات کا حکم دیا ہے، جس کا رسولوں کو حکم دیا اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے رسولو پا ک چیزیں کھاؤ اور نیک کا م کرو جو عمل تم کرتے ہو میں اسے اچھی طرح جاننے والا ہوں اور فرمایا: اے مومنو! جو پا ک رزق ہم نے تمھیں عنایت فرمایا ہے، اس میں سے کھاؤ۔ پھر آپﷺ نے ایک آدمی کا ذکر کیا: ’’جو طویل سفر کرتا ہے بال پرا گندا اور جسم غبار آلود ہے ۔(دعا کے لیے آسمان کی طرف اپنے دو نوں ہا تھ پھیلاتا ہے اے میرے رب اے میرے رب! جبکہ اس کا کھا نا حرام کا ہے اس کا پینا حرا م کا ہے۔  اس کا لبا س حرا م کا ہے۔ اور اس کو غذا حرام کی ملی ہے، تو اس کی دعا کیسےقبول ہو گی۔

بنک ایک سودی ادارہ ہے۔ اس میں سودی کاروبار ہوتا ہے۔اور حدیث پاک میں آتا ہے:

 لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا وَمُؤْكِلَهُ وَشَاهِدَيْهِ وَكَاتِبَهُ  [ابوداؤد:1206]

’رسول اللہ ﷺ نے سود لینے والے، سود دینے والے، اس کے دونوں گواہوں اور اس کے لکھنے والے پرلعنت بھیجی ہے‘۔

ظاہر ہے یہ لڑکا بھی  بینک میں کام کرتا ہے۔اس کا تعلق کمپیوٹر کے کام کےساتھ ہے۔اور کمپیوٹر میں سود لینے اور دینے کے کھاتے بنائے جاتے ہیں ، تو وہ سودلکھنے والے کے حکم میں ہے۔اس لئے اس بچے کو سمجھایا جائے، کہ  وہ کوئی اور جائز کام تلاش کرے ۔  رزق اللہ تعالی ذمہ داری ہے، وہ یقینا برکت دے گا۔ ان شاءاللہ

قرآن پاک میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے:

هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِن رِّزْقِهِ ۖ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ”. [سورةالملك:15]

’وه ذات جس نے تمہارے لیے زمین کو پست ومطیع کردیا تاکہ تم اس کی راہوں میں چلتے پھرتے رہو اور اللہ کی روزیاں کھاؤ (پیو) اسی کی طرف (تمہیں) جی کر اٹھ کھڑا ہونا ہے‘۔

یہ چلنے پھرنے سے مراد حرکت کرنا ہے۔اورمحنت کرنا ہے۔اللہ تعالی کا رزق بہت وسیع ہے اور لا محدود ہے۔ اللہ تعالی نے دوسرے مقام پر ارشاد فرمایاہے:

“وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ ۚ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا “. [الطلاق:2،3]

’اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے چھٹکارے کی شکل نکال دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو اور جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے کافی ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اپنا کام پورا کرکے ہی رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک اندازه مقرر کر رکھا ہے’۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

“إِنَّكَ لَنْ تَدَعَ شَيْئًا لِلَّهِ إِلَّا بَدَّلَكَ اللهُ بِهِ مَا هُوَ خَيْرٌ لَكَ مِنْهُ”. [مسند احمد:23074]

’ یقینا آپ کوئی چیز اللہ کی خاطر نہیں چھوڑتے، مگر اللہ تعالی آپ کو اس کا بہترین  نعم البدل عطا کرتا ہے‘۔

اس لئے اس بچے کو سمجھا دیا جائے۔ اگر وہ سمجھ جائے تو پھر اس کو رشتہ دیا جائے۔ اگر نہیں سمجھتا تو پھر لڑکی کے لیےکوئی اور اچھا رشتہ دیکھ لیا جائے۔ لڑکی نے جہاں اپنی پوری زندگی گزارنی ہے، وہاں کی کمائی  اور ذرائع آمدن کا حلال ہونا بہت ضروری ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الرؤف بن  عبد الحنان حفظہ اللہ