سوال

بنیادی طور پر میرے کرایہ دار جو ایک نیک صالح بھائی ہیں، انہوں نے ایک خاتون سے شادی کی جس نے خود کو نیک عورت ہونے کا دعویٰ کیا، لیکن  بعد میں ایک غلط عورت ثابت ہوئی اور اپنے خاوند کو فلموں وغیرہ میں لے جانے کو کہا اور ان کی والدہ(ساس) کو بھی کئی طرح سے تشدد کا نشانہ بنایا۔پہلے یہ بھائی سمجھتا تھا کہ طلاق دینا ناپسندیدہ عمل ہے، لیکن اب اسے کسی نے سمجھایا ہے کہ جب تمہاری زندگی اجیرن بن رہی ہے، تو تمہیں ایسی صورت میں طلاق دیے دینی چاہیے۔میرا سوال یہ ہے کہ وہ خود کو اس عورت سے کیسے الگ کر سکتا ہے؟۔ وہ ایک ساتھ 3 طلاقیں نہیں دے سکتا اور اسے ہر طلاق کے لیے اس کے ساتھ رہنا پڑھے گا، جتنا میں جانتا ہوں آپ رہنمائی فرمائیں کہ اسے کیا کرنا چاہیے؟                                                                                                                                (امریکہ سے ایک بھائی کا سوال)

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

بعض روایات میں طلاق کو ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے۔ اگرچہ ان کی صحت میں کلام ہے، لیکن پھر بھی  بلاوجہ طلاق دینا ایک ناپسندیدہ اور غیر مناسب عمل ہے۔  نکاح اور شادی کے ساتھ جو فوائد اور مصالح جڑے ہوئے ہیں، طلاق کی صورت میں انسان ان فوائد سے محروم ہوتا ہے، او ر کئی ایک مفاسد و نقصانات میں مبتلا ہوسکتا ہے۔  [المغني لابن قدامة:8/235، مجموع الفتاوى لابن تيمية:32/293]

لہذا نکاح کے بعد میاں بیوی کو بھرپور کوشش کرنی چاہیے، کہ وہ حسنِ معاشرت سے اس بندھن کو قائم ودائم رکھنے کی کوشش کر یں۔  اور اس میں اگر میاں بیوی میں سے کسی میں خامی ہو، تو اسے سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے، ہوسکتا ہے افہام و تفہیم کی کوئی صورت نکل آئے۔

لیکن اگر پھر بھی حالات وواقعات یہ رخ اختیا رکرلیں، کہ میاں بیوی اکٹھے نہ رہ سکتے ہوں، تو  مرد کے پاس طلاق کا اختیار ہوتا ہے، جبکہ عورت خلع کا حق استعمال کرسکتی ہے۔

طلاق دینے کا  درست طریقہ یہ ہے کہ عورت کے پاکی کے دن شرو ع ہوں، تو ان میں اس سے ہمبستری کیے بغیر، ایک طلاق دے دی جائے۔[صحيح البخاري:5332]  اگر تو بعد میں محسوس ہو کہ طلاق دینا درست نہیں تھا، لہذا ہمیں رجوع کرلینا چاہیے، تو عدت کے اندر اندر رجوع کرلیں، ورنہ پھر رجوع نہ کریں، جونہی عدت ختم ہوگی، عورت آزاد ہوگی، اور آگے کہیں بھی نکاح کرسکے گی۔

ویسے تو الگ الگ تین طلاق دینے کا اختیار ہوتا ہے، لیکن تینوں دینا ضروری نہیں ہیں، بلکہ اوپر بیان کردہ طریقے کے مطابق ایک طلاق دینا کافی ہوتا ہے۔  بعض لوگوں یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم تین طلاقیں نہیں دیں گے، تو شاید طلاق واقع نہیں ہوگی، یہ غلط فہمی ہے، اس کی کوئی حقیقت نہیں۔

اس میں فائدہ یہ ہے کہ بعد میں نکاح کے ذریعے اکٹھے ہونے کا امکان باقی ہوتا ہے، جبکہ اگر  وقتا فوقتا تین طلاقیں دے دی جائیں، تو پھر نکاح کے ذریعے بھی رجوع کرنا ممکن نہیں رہتا۔

رہی بات یہ کہ عورت طلاق کے بعد عدت کہاں گزارے گی، تو وہ اپنے خاوند کے گھر میں ہی گزارے گی۔   (سورۃ الطلاق:1) اور وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ نارمل طریقے سے رہ سکتے ہیں، صرف مباشرت اور جماع کرنا جائز نہیں۔ جب عدت ختم ہوجائے گی، تو پھر وہ گھر چھوڑ کر چلی جائے گی، اور اس کے لیے وہاں رہنا جائز نہیں ہوگا، کیونکہ دونوں کا نکاح  کا بندھن ختم ہوچکا ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف  سندھو  حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ