سوال

تقریر کے پیسے لینے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کچھ حضرات تو ایک ایک تقریر کا چالیس پچاس ہزار مانگتے ہیں، اور پیسے طے کرکے تقریر کرنے کا وقت دیتے ہیں، کیا یہ جائز ہے؟ کیا ایسے مقررین کو جلسوں میں بلانا چاہیے؟ بالخصوص جب وہ جگت بازی کرتے ہوں، اور قرآن بھی صحیح نہ پڑھ سکتے ہوں؟

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

  • مقررین اور واعظین اپنے وقت اور سفری اخراجات کے حساب سے معقول معاوضہ کا مطالبہ کریں، تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ اس کا تعلق عُرف کے ساتھ ہے، شریعت نے اس حوالے سے کوئی پابندی  یا حد مقرر نہیں کی ۔بلکہ جتنے ذوق وشوق سے علما کو بلایا جاتا ہے، ان کی  معقول ومناسب خدمت بھی اسی اہتمام سے کرنی چاہیے۔ اس معاملے میں علما وعوام دونوں کو ایک دوسرے کا  خیال کرنا چاہیے، نہ تو عالمِ دین لوگوں کے لیے بوجھ بنے، اور نہ ہی عوام علما کو مشقت میں ڈالیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ  عوام بعض مقررین وواعظین کے بھاری معاوضے کی شکایت کرتے ہیں، لیکن جلسے اور کانفرنس کے لیے بلاتے بھی انہیں کو ہیں! کیوں؟ ایک عالم دین کو جب سیکڑوں میل سفر کرکے جانا پڑے گا، دن رات  آنے جانے میں ہی لگا رہے گا، تو   عقلا اور شرعا ہر دو اعتبار سے کوئی مانع نہیں کہ وہ  حسبِ ضرورت خدمت کا مطالبہ کرے۔ اس کا بالکل آسان حل ہے کہ ہم مشہور ومعروف مقررین  و واعظین  کی بجائے دیگر علما وخطبا سے استفادہ کریں، جو بآسانی میسر بھی ہوتے ہیں، قریب علاقے سے آ بھی سکتے ہیں، اور کم خدمت پر  گزارہ بھی کرلیتے ہیں۔
  • منبر ومحراب اور مسندِ وعظ وتبلیغ کوئی عام جگہ نہیں، لہذا اس کی عظمت وتقدس کا خیال رکھنا از بس ضروری ہے۔ جو لوگ اس قابلِ احترام مقام کو   چٹکلے اور لطیفے سنانے کی جگہ سمجھتے ہیں، ایسے لوگوں کو قطعا نہیں بلانا چاہیے۔ منبر ومحراب اگر اس طرح  ناسمجھوں کے حوالے رہے گا، تو آنے والے اور بلانے والے دونوں  گناہ گار ہیں۔ اور یہ بہت بڑا المیہ اور فتنہ ہے؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«إِنَّ اللهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ النَّاسِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يَتْرُكْ عَالِمًا، اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا»[صحيح  بخاری: 100،صحیح مسلم:2673]

’’اللہ تعالی اس طرح علم نہ اٹھائےگا کہ لوگوں کے دلوں سے چھین لے،بلکہ علماکواٹھا ئے گا،یہاں تک کہ جب کوئی عالم نہ رہےگا، تولوگ جاہلوں کو اپنا پیشوا بنالیں گے،جن سے لوگ  سوال کریں گے، اور وہ  بغير علم  جواب دیں گے، یوں خود بھی گمراہ ہونگے اور دوسروں کوبھی گمراہ کریں گے۔‘‘

ایک اور حدیث میں آپ نے فرمایا:

«وَيْلٌ لِلَّذِي يُحَدِّثُ فَيَكْذِبُ لِيُضْحِكَ بِهِ الْقَوْمَ، وَيْلٌ لَهُ وَيْلٌ لَهُ»[سنن ابی داود:4990]

ہلاکت ہے اس کے لئے جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے، ہلاکت ہے، ہلاکت ہے۔

ہلکا پھلکا  اور لطیف مزاح اس میں حرج نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے احباب واصحاب کے ساتھ خوش طبعی فرمالیا کرتے تھے۔ امام بخاری نے  باب الانبساط إلى الناس کے عنوان سے ایک مستقل باب قائم کیا ہے۔  لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر اور وعظ ونصیحت کے حوالے سے وارد احادیث   سے یہی معلوم ہوتا کہ آپ  کی تقریر انتہائی سنجیدہ ہوتی تھی، اور سامعین یعنی صحابہ کرام بھی اس قدر    سکینت  اور متانت و وقار سے مجلس سجاتے، جیسا کہ سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہیں۔

لہذا افہام وتفہیم اور سامعین سے اکتاہٹ و تھکاوٹ دور کرنے کی غرض سے کچھ حسِ مزاح کا استعمال کرلیا جائے، تو اس میں حرج نہیں۔  لیکن اگر مجلس پر مزاح کا رنگ ہی غالب ہو، اور مقرر وواعظ کی پہچان ہی لطیفے اور چٹکلے بن جائیں، تو  یہ انتہائی  غیرمناسب بات ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہر وقت مزاح کا ماحول بنائے رکھنا، ممنوع ہے، کیونکہ  اس سے انسان بہ کثرت ہنستا ہے، اور اس کا دل سخت ہو جاتا ہے، انسان یادِ الہی سے دور ہوجاتا ہے، لوگوں پر جملے بازی کرکے انہیں تکلیف دینا رویہ بن جاتا ہے، دلوں میں حسد اور کینہ پیدا ہوتا ہے، اور انسان کی عزت ووقار میں فرق آتا ہے۔امام صاحب کی عبارت یوں ہے:

“المزاح المنهي عنه هو الذي فيه إفراطٌ ويداوم عليه؛ فإنه يورث الضَّحك وقسوة القلب، ويشغل عن ذِكر الله تعالى، ويؤول في كثير من الأوقات إلى الإيذاء، ويورِث الأحقاد، ويسقِط المهابةَ والوقار “. [الأذكار:326]

ان دو باتوں کا تو سوال میں ذکر تھا،مزید کچھ باتیں جن کا عوام اور مقررین کو خیال رکھنا چاہیے، بطور فائدہ ذکر کی جاتی ہیں، کیونکہ یہ مسائل آج کل عام ہیں:

  • ایسے مقرر و خطیب کو دعوت نہ دیں جو قرآن وحدیث صحیح نہ پڑھتا ہو۔ حضرتِ عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، ایک خطیب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تقریر کی، اور کہا:

“مَنْ يُطِعِ اللهَ وَرَسُولَهُ، فَقَدْ رَشَدَ، وَمَنْ يَعْصِهِمَا، فَقَدْ غَوَى”

جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی، وہ ہدایت یافتہ ہوا، اور جس نے ان دونوں کی نافرمانی کی، وہ گمراہ ہوا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا:

“بِئْسَ الْخَطِيبُ أَنْتَ، قُلْ: وَمَنْ يَعْصِ اللهَ وَرَسُولَهُ… “

تم برے خطیب ہو، تمہیں ایسے کہنا چاہیے کہ جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی…۔

یہ حدیث صحیح مسلم [870] میں ہے، جبکہ بعض دیگر روایات کے اندر یہ وضاحت بھی ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’چپ ہوجاؤ‘‘ [مسند طیالسی:1119]اور بعض میں ہے کہ’’ یہاں سے چلے جاؤ‘‘ [سنن ابی داود:4981]

اس حدیث میں اہلِ علم کے ہاں  یہ بحث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کس بات پر ٹوکا؟ بعض کا خیال ہے کہ اس نے  (يَعْصِ اللهَ وَرَسُولَهُ) کہنے کی بجائے (يَعْصِهِمَا) کہا تھا، کچھ علماکا یہ خیال ہے کہ اس نے  بات مکمل ہونے سے پہلے(يَعْصِهِمَا) پر وقف کرلیا تھا، جس سے معنی ومفہوم بدل جاتا ہے۔ خیر یہ ایک علمی بحث ہے، دونوں میں سے کوئی بھی وجہ ہو سکتی ہے، لیکن  یہاں یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ خطیب کے لیے اس قسم کی غلطیوں کی قطعا گنجائش نہیں ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں کے بعض خطبا  ومقررین کے ہاں، اس  قسم کی غلطیاں تو ایک طرف رہ گئیں، قرآن وحدیث کی نصوص والفاظ پڑھنے میں ایسی خطرناک وفحش غلطیاں کرتے ہیں کہ الفاظ اور جملے ہی تبدیل ہوجاتے ہیں۔ قرآن اور حدیث  کا نام لے کر ایسی عبارتیں بول جاتے ہیں، جن کا قرآن اور حدیث میں  کوئی وجود ہی نہیں !

بلکہ قرآن وحدیث کے علاوہ بھی مقررین وواعظین کو چاہیے کہ ایسی اصطلاحات اور الفاظ نہ بولیں، جن کے تلفظ میں آپ کو مسئلہ ہوسکتا ہے، یا پھر تقریر سے پہلے متعلقہ لوگوں سے تلفظ وغیرہ کی تحقیق کرلیں، غلطی سے کوئی بندہ پاک نہیں، لیکن بعض فاش غلطیوں سے سامعین پر بہت برا تاثر پڑتا ہے ، اور دعوتِ دین کا کام متاثر ہوتا ہے۔

  • مزید ایسے لوگوں کو بھی منبر ومحراب کی زینت نہ بنایا جائے، جن کی شکل وصورت علما والی نہ ہو، جو مقرر وعدہ خلافی کرتا ہو،جس کے بارے میں معلوم ہو کہ یہ نجی مجالس میں گالم گلوچ اور فحش گوئی کرتا ہے،جو مستند علما ومشايخ  اور بزرگ اہلِ علم کی تحقیر وتذلیل کرتا ہو، فتنہ پروری اور بے جا اختلاف و تفرقہ کا ذریعہ بنتا ہو، ان سب سے گریز کرنا چاہیے۔
  • اوپر ہم نے کچھ خامیوں کا ذکر کیا ہے، جن سے مقررین کو بچنا چاہیے، اور عوام کو ایسے واعظین سے گریز کرنا چاہیے، اب ہم کچھ ایسی چیزوں کی نشاندہی بھی کرنا چاہتے ہیں، جو کہ جائز ومباح ہیں، لیکن کچھ لوگ لاعلمی کی بنا پر انہیں معیوب سمجھتے ہیں، مثلا: عالم كا اچھا اور خوبصورت لباس زیب تن کرنا، ضرورت کے مطابق گاڑی رکھنا، تقریر مختصر کرنا، یا ساتھ ورقہ لے کر اس سے دیکھ کر خطاب كرنا،سامعین کو بیدار رکھنے کے لیے ہلکا پھلکا مزاح یا موضوع سے غیر متعلق بات کرنا۔
  • اسی طرح بعض لوگ بڑا عالم وواعظ اسے ہی سمجھتے ہیں ، جو منت سماجت کروا کر وقت دے، حالانکہ خود وقت دینے والے عالم کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، بلکہ ایسے علماکی دوسروں سےبڑھ کر قدر کریں۔ اسی طرح اگر کوئی عالمِ دین علمی ودعوتی مصروفیت یا کسی عذر کی بنا پر وقت نہ دے رہا ہو، تو وقت لینے پر اصرار نہ کریں۔ بعض لوگ عالم دین کو ایک خاص وقت دے کر، پھر اس کا اضافی وقت بہت ضائع کرواتے ہیں، جس طرح عالم دین کا وعدہ خلافی کرنا درست نہیں، اسی طرح میزبان کا عالم کے ساتھ یہ رویہ بھی درست نہیں۔
  • کانفرنسز اور جلسے جلوس رکھنے سے علاقے میں مسجد ومدرسہ اور جماعت کا تعارف ہوتا ہے، لوگوں کی اصلاح اور ساتھ جڑنے کا امکان بھی ہوتا ہے. لہذا ان کا انعقاد ہونا چاہیے، لیکن اس میں اسراف اور کوتاہیوں سے بچتے ہوئے، حسب ضرورت تک محدود رہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ایک جلسے میں خطبا اور واعظین کی تعداد معقول اور مناسب ہونی چاہیے، ساری ساری رات تقاریر کا سلسلہ مناسب نہیں، اسی طرح ايك مقرر کو  ایک رات میں ایک پروگرام پر اکتفا کرنا چاہیے، گھنٹوں بیٹھنے والی عوام مقررین سے کماحقہ مستفید نہیں ہوتی، اور مقررين بھی اس وجہ سے حقوق اللہ اور حقوق العباد  میں سے کئی ایک امور میں کوتاہی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الرؤف بن  عبد الحنان حفظہ اللہ