سوال

میرا نام عدیل ہے میں ایمازون وغیرہ پر ای کامرس کا بزنس کرتا ہوں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں جیسا کہ امریکہ ، انگلینڈ وغیرہ۔ان پلیٹ فارمز پر میرے کام کی نوعیت کچھ اس طرح کی ہے کہ : میں ایک دکان کھولتا ہوں اور اس دکان پر چند پراڈکٹس کی نمائش کرتاہوں  اور ان کی تفصیل لکھتا ہوں، جیسا کہ اس پراڈکٹ کی قیمت اس کا سائز ، اس کی تصویر وغیرہ لیکن وہ پراڈکٹ میر ے پاس موجود نہیں۔ لیکن جب مجھے آڈر آتا ہے تو میں وہ پراڈکٹ کسی دوسرے دوکاندار کو آڈر پلیس کرتا ہوں، اور اسے میں اپنی جیب سے Payment کرتا ہوں، اور اسے کہتا ہوں کہ یہ آرڈراس ایڈریس پے بھیج دو اور وہ بھیج دیتے ہیں۔

کیا یہ کام جائز ہے یا نہیں کیوں کہ میں نے آپؐ کی حدیث سن رکھی ہےاگر کوئی مال آپ کے قبضہ میں نہ ہوتو اس کو آپ بیچ نہیں سکتے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس حدیث کا تعلق اس صورت کے ساتھ ہے، جب دھوکہ دینا مقصود ہو۔ جبکہ میں اس کام میں 100 فیصددرست چیز ہی کسٹمر کو بتاتا ہوں اور کسٹمر بھی خوش ہو جاتا ہے۔

براہ مہربانی میری رہنمائی فرمائیں تاکہ اگر اس کام میں کوئی ممانعت ہے تو میں اس کا متبادل کوئی راستہ اختیار کروں ۔شکریہ

 جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

  • نبی ﷺ نے اس چیز کو بیچنے سے منع کیا ہے جس پر قبضہ نا ہو ۔ اس سلسلے میں متعد احادیث وارد  ہوئی ہیں۔حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

“لاَ تبع ما ليسَ عندَكَ”.(ترمذي:1232)

’’جو چیز تمہارے پاس نہیں ہے اس کو خروخت نہ کرو‘‘۔

مزید فرمایا:”منِ ابتاع طعامًا فلا يبعْه حتى يستوفيَهُ” (صحيح البخاري:2136)

’جو شخص غلہ خریدے تو جب تک اسے پورا وصول نہ کر لے اسے آگے فروخت نہ کرے‘۔

  • البتہ اس  طرح کے معاملات میں شریعت کی طرف سے دو جائز صورتیں موجود ہیں:

1۔ وکالت: یعنی جو اشیاء ملکیت و قبضہ میں نہیں ہیں،  ان کے حوالے سے اپنے آپ کو مالک ظاہر نہ کریں ،بلکہ بطور وکیل یا کمیشن ایجنٹ بن کر ان اشیاء کو  فروخت كيا جائے۔

2۔ بیع سلف:     اس میں  خرید و فروخت کے وقت چیز کا پاس موجود ہونا ضروری نہیں، بلکہ مطلوبہ شے کی  کوالٹی، قیمت اور دیگر تفصیلات طے کرلی جائیں اوریہ بھی طے کرلیا جائے کہ فلاں وقت اور تاریخ کو آپ کویہ چیز میسر کردی جائے گی، تو یہ درست ہے۔ لیکن اس میں بھی بہرصورت  چیز خریدار کو دینے سے پہلے اپنی ملکیت میں لانا ضروری ہے۔ اور اگر ایسا ممکن نہ ہو، تو پھر پہلی صورت پر  ہی اکتفا کیا جائے۔

  • یہ بات درست نہیں کہ آپ چونکہ دھوکہ نہیں دیتے، لہذا آپ کے لیے یہ صورت جائز ہوگی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دھوکے سے بھی منع کیا ہے، اور بذاتِ خود ایسی خرید و فروخت سے بھی منع کیا ہے، جس میں چیز آپ کے پاس موجود نہ ہو، جیسا کہ اوپر احادیث گزر چکی ہیں۔ لہذا یہ کاروبار اور خرید و فروخت ممنوع ہے، آپ اس کی بجائے کوئی متبادل جائز کاروبار اختیار کریں۔  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

“إِنَّكَ لَنْ تَدَعَ شَيْئًا لِلَّهِ إِلَّا بَدَّلَكَ اللهُ بِهِ مَا هُوَ خَيْرٌ لَكَ مِنْهُ”. [مسند احمد:23074]

’ یقینا آپ کوئی چیز اللہ کی خاطر نہیں چھوڑتے، مگر اللہ تعالی آپ کو اس کا بہترین  نعم البدل عطا کرتا ہے‘۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف  سندھو  حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ