سوال

ایک شخص  کسی کے نسب کو تبدیل کرنے کی جھوٹی گواہی دیتا ہے، مثلا کہتا ہے’ ث‘ شیرغفار کے نطفے سے ہے،  اور اس کی بیٹی ہے ،جبکہ وہ جانتا ہے کہ شیرغفار کی اولاد نہیں تھی، اور یہ’ ث‘ کا اصل والد اسرار احمد ہے ۔ایسا شخص جو جھوٹی گواہی کے ذریعے سے نسب تبدیل کر رہا ہے، اور اصل ورثا کی حق تلفی کر رہا ہے، اس کے اس جرم اور گناہ کی شریعت کی رو سے نوعیت کیا ہے ؟  نیزجھوٹی گواہی دینے والے کی مدد کرنے ، اس سے ہمدردی رکھنے والے، اور اس کو منع نہ کرنے والے، بلکہ حوصلہ دینے والے،  کیا اس جھوٹی گواہی دینے والے کے جرم اور گناہ میں شریک ہوں گے ؟

منجانب :ماسٹر محمد خان ،فوجی مشتاق احمد،ماسٹر اصغر علی ۔

ضلع میانوالی

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

بشرط صحت سوال، صورت مذکورہ میں اس شخص نے 3 کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کیا ہے:

1- جھوٹی گواہی              2- نسب بدلنا                  3- ظلم

  • جھوٹی گواہی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اکبر الکبائر (کبيرہ گناہوں میں سے سب سے بڑے گناہوں) میں شمار فرمایا ہے،سیدنا ابو بکرہ نفیع بن الحارث الثقفی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ؟”. قُلْنَا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ: “الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ”. وَكَانَ مُتَّكِئًا فَجَلَسَ،  فَقَالَ: “أَلَا وَقَوْلُ الزُّورِ وَشَهَادَةُ الزُّورِ، أَلَا وَقَوْلُ الزُّورِ وَشَهَادَةُ الزُّورِ”. فَمَا زَالَ يَقُولُهَا حَتَّى قُلْتُ: لَا يَسْكُتُ؟

کیا میں تمھیں کبیرہ گناہوں ہوں میں سے سب سے بڑے گناہ نہ بتاؤں؟ہم نے عرض کیا کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول! صلی اللہ علیہ وسلم ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ کے ساتھ شرک کرنا، اوروالدین کی نافرمانی کرنا۔(یہ بات بیان فرماتے ہوئے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگائے ہوئے تھے، اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم (ٹیک چھوڑ کر سیدھے ہو کر) بیٹھ گئے، اور فرمایا:جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا، جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات مسلسل دہراتے رہے حتی کہ میں نے کہا اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش نہیں ہونگے؟ [صحيح البخاری: 5976]

  • کسی کو بیٹا بنانا اور گود میں لینا ممنوع نہیں ہے، لیکن دور جاہلیت میں لوگ اپنے منہ بولے بیٹے کو اپنی طرف منسوب کر لیتے تھے ، یعنی ولدیت میں اس کے باپ کی بجائے اپنا نام لگا لیتے تھے،اس نسب بدلنے کو اللہ سبحانہ وتعالی نے نا انصافی اور گناہ والا کام قرار دیا ،اور فرمایا:

{وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ * ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا} [الأحزاب: 4، 5]

اللہ نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے بیٹے نہیں بنایا، یہ تمہارے اپنے مونہوں کی بات ہے، اور اللہ سچ کہتا ہے، اور وہی سیدھا راستہ دکھاتا ہے. انہیں انکے باپوں کی نسبت سے پکارو، یہ اللہ کے ہاں زیادہ انصاف کی بات ہے، پھر اگر تمہیں انکے باپ معلوم نہ ہوں تو وہ دین میں تمہارے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں. اور جو تم نے خطا کی تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں، اور لیکن جو تمہارے دلوں نے ارادے سے کیا (اس میں گناہ ہے) اور اللہ ہمیشہ سے بے حد بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے.

 

گویا اللہ تبارک و تعالیٰ نے نسب بدلنے کو سچ کے خلاف یعنی جھوٹ قرار دیا ہے، اور جان بوجھ کر ایسا کرنے کو گناہ کہا ہے۔ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جھوٹ کو سب سے بڑے جھوٹوں میں شمار کیا ہے؛ سیدنا واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ  بيان كرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 “إِنَّ مِنْ أَعْظَمِ الْفِرَى أَنْ يَدَّعِيَ الرَّجُلُ إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، أَوْ يُرِيَ عَيْنَهُ مَا لَمْ تَرَ، أَوْ يَقُولَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَمْ يَقُلْ”.

یہ سب سے بڑے جھوٹوں میں سے ہے کہ آدمی  اپنے والد کے سوا کسی اور کی طرف دعوی (نسب) کرے،یا اپنی آنکھوں کو وہ دکھائے جو انہوں نے نہیں دیکھا (یعنی جھوٹا خواب گھڑے) ،یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کر کے وہ بات کہے جو آپ نے نہیں فرمائی.    [صحيح البخاري 3509 ]

یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، أَوِ انْتَمَى إِلَى غَيْرِ مَوَالِيهِ؛ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا”.

جس نے اپنے والد کے سوا کسی اور کی طرف دعوی نسب کیا، یا اپنے مالکوں کے سوا کسی اور کی طرف نسبت کی؛ تو اس پہ اللہ تعالیٰ کی اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، اللہ اس سے قیامت کے دن کوئی بھی نفلی یا فرضی عبادت قبول نہ فرمائے گا!   [صحيح مسلم 1370 ]

سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

 “لَيْسَ مِنْ رَجُلٍ ادَّعَى لِغَيْرِ أَبِيهِ، وَهُوَ يَعْلَمُهُ، إِلَّا كَفَرَ”.

جس شخص نے بھی جانتے بوجھتے ہوئے اپنے باپ کے سوا کسی اور کی طرف نسب جوڑا تو اس نے کفر ہی کیا.

[صحيح البخاري 3508  ]

اسی طرح سیدنا سعد بن ابی وقاص اور سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

“مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، وَهُوَ يَعْلَمُ فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ”.

جس نے جانتے بوجھتے ہوئے اپنے والد کے سوا کسی اور کی طرف دعوی نسب کیا تو اس پہ جنت حرام ہے!

[صحيح البخاری: 427]

  • اور اپنی اس جھوٹی گواہی کے ذریعے اصل ورثاکو حق سے محروم کرنے کا جو اس نے ظلم کیا ہے، وہ بھی بہت بڑا گناہ ہے؛ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“الظُّلْمُ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ”.

ایک ظلم قیامت کے دن کئی اندھیروں یا سختیوں کا باعث بن جائے گا. [صحيح البخاری: 2447]

اسی طرح ناجائز طور پر کسی مسلمان کا مال کھانے کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے:

{وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ} [البقرة: 188]

اور اپنے مال آپس میں باطل طریقے سے مت کھاؤ، اور نہ انہیں حاکموں کی طرف لے جاؤ، تاکہ لوگوں کے مالوں میں سے ایک حصہ گناہ کے ساتھ کھا جاؤ، حالانکہ تم جانتے ہو.

اور جو لوگ اسکی مدد کرنے والے اور اسکی حوصلہ افزائی کرنے والے ہیں، وہ اسکے گناہ میں اسکے ساتھ تعاون کرکے مجرم بن رہے ہیں. اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے:

{وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَاب} [المائدة: 2]

اور نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو، اور گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے سے تعاون نہ کرو.اور اللہ سے ڈرو، یقیناً اللہ سخت سزا دینے والا ہے.

مفتیانِ کرام

تحریر کنندہ: ابو عبد الرحمن محمد رفیق طاہر

’’ جواب درست ہے۔‘‘

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ  (رئیس اللجنۃ)

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ