سوال

ہماری شادی ہوئی، لیکن مجھے تین ماہ بعد پتہ چلا کہ میری بیوی پہلے سے حاملہ ہے، اور اس وقت اس کے پیٹ میں چھے ماہ کا بچہ ہے، لہذا میں نے اسے یکبارگی تین طلاقیں دے دیں. پھر بعد میں اسقاطِ حمل کروا دیا گیا… اب ہم دونوں میاں بیوی نے اللہ تعالی سے توبہ کی ہے، اور ہم دوبارہ آپس میں ملنا چاہتے ہیں، کیا اس کی کوئی صورت ہے؟ کیا حالتِ حمل میں  نکاح ٹھیک تھا؟ اور  اس کے بعد طلاق بھی ہوگئی تھی، اور اب رجوع کا کیا طریقہ ہے؟

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

  • زانیہ عورت سے نکاح کرنے سے شريعت نے منع كيا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشادِ گرامی ہے:

{الزَّانِي لَا يَنْكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ وَحُرِّمَ ذَلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ} [النور: 3]

زانی شخص زانیہ یا مشرکہ عورت سے ہی نکاح کرسکتا ہے، اسی طرح زانیہ عورت سے بھی زانی یا مشرک شخص ہی نکاح کرتا ہے، اہلِ ایمان پر یہ حرام قرار دے دیا گیا ہے۔

ابو مرثد غنوی رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے، زمانہ جاہلیت میں عناق نامی ایک بدکارہ عورت کے ساتھ ان کی راہ و رسم تھی، اسلام قبول کرنے کےبعد انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لی کہ میں اس عورت سے نکاح کرسکتا ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار کی، لیکن  اللہ تعالی نے قرآنِ کریم میں  (اوپر بیان کردہ) حکم نازل فرمادیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ آیت سنائی، اور اس عورت سے نکاح کرنے سے منع کردیا۔ ( دیکھیں: سنن ابی داود:2051)

مذکورہ آیت اور حدیثِ مبارک اس بارے میں صریح اور واضح ہے کہ زانیہ عورت سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔  ( دیکھیں: عون المعبود:6/34، تفسیر السعدی :ص 561)

  • بدکار عورت سے نکاح کی ممانعت میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اس سے نسب کا اختلاط ہوجاتا ہے، ایک ہی عورت کے ساتھ جب ایک سے زائد لوگ تعلقات رکھیں گے، تو نتیجہ میں پیدا ہونے والے بچے کے بار ے میں فیصلہ کرنا ناممکن ہے کہ اس کا باپ کون ہے؟!

بلکہ ایک دفعہ جنگ کے موقعہ پر جب مالِ غنیمت کے طور پر لونڈیاں صحابہ کرام کے حصہ میں آئیں، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْقِيَ مَاءَهُ زَرْعَ غَيْرِهِ» يَعْنِي: إِتْيَانَ الْحبَالَى. (سنن أبي داود :2158)

اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھنے والے کے لیے جائزنہیں کہ  وہ کسی اور کی کھیتی کوپانی دے،  یعنی کسی حاملہ لونڈی سے صحبت کرے۔

گویا جو شخص پہلے سے حاملہ عورت کے ساتھ صحبت کرے گا، وہ گویا کسی اور کی کھیتی کو پانی دے گا۔

اسی لیے شریعت  نے حاملہ عورت کی عدت بھی وضع حمل ( یعنی بچہ پیدا ہونا) رکھی ہے۔ اللہ تعالی کا ارشادِ گرامی ہے:

{وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ} [الطلاق: 4]

حاملہ عورتوں کی عدت وضعِ حمل ہے۔

یعنی جب تک عورت کا  وضعِ حمل کے بعد پیٹ( رحم) خالی نہیں ہوجاتا، تب تک  اسے کسی اور کےساتھ نکاح کی اجازت نہیں ہے۔

  • لہذا ایسی صورت میں کیا گیا نکاح باطل ہے۔اور اس کے بعد جو دوسرا سوال ہے وہ خود بخود ہی ختم ہو جاتا ہے، کیونکہ جب ان کا نکاح ہی نہیں ہوا ہے تو جو اس پر مرتب  ہونے والے طلاق وغیرہ جیسے احکام ہیں، خود ہی باطل ہیں۔
  • ایک بات یاد رکھیں، حمل جائز ہو یا ناجائز ہو، اس کا اسقاط کبیرہ گناہ ہے، لیکن بہرصورت وضع حمل یا اسقاط کے بعد چونکہ استبراء رحم ( یعنی پیٹ صاف ہوجاتا ہے) ہوجاتا ہے، لہذا  نکاح  کرنا جائز ہے۔ اس لیے    آپ دونوں دوبارہ نکاح کرکے اکٹھے ہوسکتے ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب۔

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ  (رئیس اللجنۃ)

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ