سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ محمد ادریس ولدذوالفقار علی نے میری بیٹی رابعہ سے عدالت میں نکاح کیا۔اور تقریبا دو ماہ بعد ، پہلے چندلوگوں کےسامنے تین مرتبہ طلاق دی۔ اور پھر طلاق ثلاثہ اور نوٹس بھی لکھ دیا۔اب شوہر  کہتا ہے،کہ میری بیوی اس وقت ایامِ حیض میں تھی۔اس لیے طلاق واقع نہیں ہوئی۔اوربیوی کاکہنا ہے کہ تین مرتبہ طلاق دینے سے ایک ہی طلاق ہوتی ہے۔براہ کرم شریعت کی روشنی میں بتائیں کےطلاق ہوئی ہے یا نہیں؟

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

صورت مسؤلہ میں جو اکٹھی ایک مجلس میں تین طلاقیں دی ہیں، وہ تو ایک ہی معتبر ہوگی ۔ ( تفصیل کے لیے  ہماری ویب سائٹ پر فتوی نمبر 17 ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔)

بعد میں جو ایک ہی دفعہ طلاقِ ثلاثہ کا نوٹس بھیجا ہے ،وه بھی پہلی کی تاکید ہی سمجھا جائے گا، الا کہ خاوند خود کہے کہ میری دوبارہ طلاق دینے کی نیت تھی۔

اگر اس کی نیت دوبارہ طلاق دینے کی تھی، تو وہ دوسری طلاق شمار ہوگی ۔اس کو طلاقِ رجعی کہتے ہیں، کیونکہ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد عدت کے اندر  رجوع ہو سکتا ہے، اور اگر عدت گزر جائے تو دوبارہ نئے سرے سے نکاح کیا جاسکتا ہے۔

باقی حیض کی حالت میں طلاق دینا غیر شرعی ہے ، لیکن یہ طلاق واقع  ہو جاتی ہے۔  کیونکہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے جب اپنی بیوی کو حالتِ حیض میں طلاق دی تھی (صحیح البخاری:5251) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے باقاعدہ طلاق شمار کیا تھا۔(مسند طیالسی:68، سنن دارقطنی:3867)

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف  سندھو  حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ