سوال

مسجد کے اوپر ایک منزل اس نیت سے بنائی گئی، کہ وہاں خواتین کی نماز جمعہ،تراویح اور تعلیم و تدریس کا سلسلہ شروع کیا جائے ۔کیا حائضہ خواتین وہاں بیٹھ سکتی ہیں؟ خواتین میں یہ اشکال پیدا ہو رہا ہے، کیونکہ یہ مسجد کا حصہ ہے ۔اور  صرف جمعہ کی نماز کے لئے مردوں کےلئے بھی وہاں علیحدہ اہتمام کر دیا جاتاہے، تو حیض کے دنوں میں ہم نہیں آئیں گی قرآن وسنت کی روشنی میں تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

ایک اصولی سی بات سمجھیں کہ مسجد  کے احکام اسی جگہ پر لاگو ہوں گے، جسے مسجد کی نیت سے تعمیر کیا گیا ہے۔ اگر مسجد کے ساتھ ملحق  یا اوپرکوئی رہائش بنائی گئی ہے، یا درس و تدریس کے لیے، کوئی  کمرے یا ہال تعمیر کیا گیا ہے، تو اس کا حکم مسجد والا نہیں ہوگا۔ اگرچہ بوقت ضرورت وہاں نماز بھی پڑھی جاتی ہو۔

یہ پرانا تصور ہے کہ جہاں مسجد بن جاتی تھی،وہ تحت الثریٰ سے لے کر فوق الثريا   تک مسجد ہی ہوتی تھی ۔ اب یہ بات نہیں ہے ۔  بسااوقات مسجد کے اوپر مارکیٹ بن جاتی ہے،یا امام مسجدکا گھر بن جاتا ہے، تو اس کو مسجد شمار نہیں کیا جاتا۔لہذا آپ  لوگوں نے مسجد کے  اوپر والا حصہ اصلا تعلیم اور تعلم کے لئے  بنايا تھا، تو وہاں مسجد والی  پابندی نہیں ہے، کہ حائضہ عورتیں وہاں نہیں آسکتیں، وغیرہ۔ اگرچہ وقتی طور پر ضرورت کى تحت لوگ وہاں جمعہ پڑھ لیتے ہیں، یا عورتیں وہاں  نماز تراویح ادا کرلیتی ہیں۔لہذا خواتین وہاں مطمئن ہو کر، سکون سے اپنے تعلیم و تعلم کے معاملات ادا کرسکتی ہیں۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الرؤف بن  عبد الحنان حفظہ اللہ