سوال

خاوند فوت ہو گیا ،بیوہ نے دوسری شادی کر لی ،ددھیال کا اصرار ہے بچے ہمیں دو بیوہ اس کے لیے تیار نہیں ہے۔ کیونکہ دوسرے خاوند نے بچوں کو قبول کر لیا ہے بلکہ نکاح ہی اس شرط پہ ہوا ہے ۔عورت کہتی ہے کہ میں اپنے بچوں کی بہترین تربیت کرسکتی ہوں بوڑھے ساس سسر محض ضد میں ہیں ۔اور بیوہ اب مزید بچے پیدا کرنے کی اہل نہیں ہے۔شرعا بچوں کا حقدار کون ہے؟

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

اس سوال میں کئی ایک باتوں کی وضاحت ضروری ہے، جو کہ حسبِ ذیل ہے:

  • اللہ تعالی کا یہ نظام ہے کہ نسل باپ کی طرف سے آگے بڑھتی ہے، لہذا بیٹا ہو یا بیٹی ان کی سرپرستی اور ان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری باپ کی ہی ہوتی ہے۔ اگر باپ نہ ہو، تو اس کے دیگر عزیز واقارب ان بچوں کے اولیاء، ذمہ دار اور سرپرست ہوں گے۔
  • لیکن اولاد اور بچے جب پرورش اور تربیت کے محتاج ہوں، اور سنِ شعور کو نہ پہنچے ہوں، تو پھر وہ ماں کے پاس رہیں گے، چونکہ بچے کی پرورش و تربیت کے سلسلہ میں ماں زیادہ رحم دل اور بچے پر شفقت کرنے والی ہوتی ہے۔چنانچہ ایک ماں نے  بچے کی پرورش کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:

“إِنَّ ابْنِي هَذَا كَانَ بَطْنِي لَهُ وِعَاءً، وَثَدْيِي لَهُ سِقَاءً، وَحِجْرِي لَهُ حِوَاءً، وَإِنَّ أَبَاهُ طَلَّقَنِي وَأَرَادَ أَنْ يَنْتَزِعَهُ مِنِّي، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم:َأَنْتِ أَحَقُّ بِهِ مَا لَمْ تَنْكِحِي”.[ابو داود: 2276]

’میرا یہ بیٹا، میرا پیٹ اس کے لیے برتن! میرا سینہ اس کے لیے مشکیزہ اور میرا دامن اس کے لیے پناہ گاہ رہا ہے۔ اس کے باپ نے مجھے طلاق دے دی ہے اور چاہتا ہے کہ اس کو مجھ سے چھین لے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: ”تو اس کی زیادہ حقدار ہے جب تک کہ نکاح نہ کرے‘۔

اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اگر ماں بچوں کو اپنے پاس رکھنا چاہے، تو یہ اس کا حق ہے۔  بلکہ ماں کی عدم موجودگی میں شریعت نے خالہ کو یہ حق دیا ہے ،کہ وہ اپنے بھانجے یا بھانجی کی پرورش کرے۔جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی کا فیصلہ اس کی خالہ کے حق میں دیا تھا۔ اور فرمایا: «الخَالَةُ بِمَنْزِلَةِ الأُمِّ».[بخاری:2699] ’   خالہ ماں کے درجہ میں ہے‘۔

  • البتہ یہ یاد رہے کہ ماں کے پاس حقِ حضانت ( پرورش و تربیت کا حق) تب تک ہے، جب تک وہ عقد ثانی نہ کرے۔  اگر وہ آگے نکاح کرلے گی، تو اس کا یہ حق ساقط ہوجائے گا۔ کیونکہ وہ اگلے خاوند  اور اس کے بچوں کی ذمہ دار بن جائے گی۔ اسی طرح جب بچے بالغ اور سمجھ دار ہوجائیں، اور وہ باپ یا ددھیال کے پاس جانا چاہیں، تو انہیں یہ فیصلہ کرنے کا حق ہوگا۔
  • یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ اصل مقصد بچے کی صحیح طریقے سے تربیت و پرورش ہے، عموما چونکہ ماں بچے کے لیے زیادہ رحمدل اور حریص ہوتی ہے، اس لیے ماں کو یہ حق دیا گیا، لیکن اگر کہیں ایسا ہو کہ ماں کے پاس رہنے کی وجہ سے بچے کی  صحت اور تعلیم وتربیت متاثر ہورہی ہو، اور باپ اس سے بہتر   خیال رکھ سکتا ہو، تو پھر بچوں کو باپ  کے حوالے کردیا جائے گا۔ ہمارے ہاں بعض دفعہ اس حوالے سے بہت کوتاہی کی جاتی ہے، بچوں کی پرورش اور تربیت کو نظر انداز کرتے ہوئے، صرف اس لیے بچے  لینے پر اصرار کیا جاتا ہے، کیونکہ ان کے ساتھ جائیداد وغیرہ کے  کئی ایک لالچ بھی منسلک ہوتے ہیں۔ یہ رویہ بالکل درست نہیں ہے۔
  • یہ بات بھی پیش نظر رہے ،کہ بچہ جہاں بھی ہوگا ماں یا باپ یا کوئی دوسرا ہمدرد رشتہ دار اسے ملنا چاہے۔ تو اس پر ہرگز پابندی نہ لگائی جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

الرَّحِمُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ تَقُولُ مَنْ وَصَلَنِي وَصَلَهُ اللَّهُ وَمَنْ قَطَعَنِي قَطَعَهُ اللَّهُ [مسلم:2555]

’رَحم (خونی رشتوں کا سارا سلسلہ) عرش کے ساتھ چمٹا ہوا ہے اور یہ کہتا ہے: جس نے میرے تعلق کو جوڑ کر رکھا اللہ اس کے ساتھ تعلق جوڑے گا اور جس نے میرے تعلق کو توڑ دیا اللہ تعالیٰ اس سے تعلق توڑ لے گا‘۔لہذا میل ملاپ پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف  سندھو  حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ