سوال

ایک بہن کا سوال ہے ،کہ وہ فارمیسی پڑھ رہی ہیں یعنی علم الادویات۔ تعلیم مکمل ہونے کے بعد کیا وہ انسانیت کی خدمت کے لئے مکمل پردے میں نامحرم سے ہنسی مذاق سے بچتے ہوئے نوکری کرسکتی ہیں؟علم الادویات کے شعبہ میں مردوں کے ساتھ اختلاط بھی ہوتا ہے۔

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

اصل میں شریعت میں جو عورتوں کا دائرہ کار ہے وہ مردوں کے دائرہ کار سے مختلف ہے۔عورتوں کے دائرہ کار کے بارے میں قرآنِ کریم میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے:

“وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى”. [الأحزاب: 33]

’اور تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو ،اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح بناؤ سنگھار کا اظہار نہ کرو‘۔

گویا عورت کو شمعِ محفل نہیں ،بلکہ چراغ خانہ بن کر  رہنا چاہیے۔

ہمارا مشورہ یہی ہے،کہ علم حاصل کرنے میں تو کوئی حرج نہیں ہے۔لیکن خدمتِ انسانیت کے لئے ایسی جگہ پر نوکری کرنا جہاں مرد و زن کا اختلاط ہو، صحیح نہیں ہے۔ دینِ اسلام کی رو سے عورت کے لیے بلا ضرورت کمانےکے لیے گھر سے باہر نکلنا بھی  پسندیدہ نہیں ہے، کیوں کہ یہ بہت سی خرابیوں اور مفاسد کا باعث بنتا ہے۔  البتہ ضرورتِ شدیدہ ہو، مثلاً باپ، بیٹا، خاوند یا کوئی اور مرد اس کے نان نفقہ دینے پر قادر نہ ہو تو اس صورت میں اگر عورت مکمل پردہ کے ساتھ کمانے کے لیے گھر سے نکلے اور وہ وہاں جہاں مرد و زن کا اختلاط نہ ہو، تو اس کی گنجائش ہے۔

البتہ بغیر پردے کے عورتوں کا کام کرنا، یا پردے میں تو ہوں لیکن مردوں کے ساتھ اختلاط کرنا ،شریعت مطہرہ کی نظر میں جائز نہیں ہے۔جیسا کہ حدیث پاک میں آتا ہے:

“فاختلط الرجال مع النساء في الطريق فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم للنساء: استأخرن فإنه ليس لكن أن تحققن الطريق، عليكن بحافات الطريق، فكانت المرأة تلتصق بالجدار حتى إن ثوبها ليتعلق بالجدار من لصوقها به”. [ابو داود: 5272]

’ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے راستے میں مردوں اور عورتوں کو اکٹھے چلتے ہوئے دیکھا۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو فرمایا: تم پر ضروری ہے کہ راستے کے کنارے کنارے چلو۔اور صحابیات نے اس پر ایسا عمل کیا کہ وہ کہتی ہیں کہ بسا اوقات ہمارا کپڑا دیوار کو چمٹ جاتا تھا‘۔

اس سے ثابت ہوتا  ہے کہ مرد و زن کا اختلاط شریعت کو پسند نہیں ہے۔

اگر یہ طالبہ ادویات کے شعبہ میں کام کرنا چاہتی ہے، اور وہ شعبہ خاص عورتوں کے لئے ہے،تو اس میں کوئی حرج والی بات نہیں ہے۔اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ابتدا میں تو کچھ احتیاط ہوتی ہے۔ لیکن بعد میں اس کے نتائج سنگین ہوتے ہیں۔

اللہ رب العزت نے مرد و عورت کے اختلاط میں، مرد و عورت کے میل جول میں کچھ حدود رکھی ہیں۔ اس لیے کہ یہیں سے خرابی پیدا ہوتی ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے جناب نبی کریمؐ نے فرمایا:

مرد و عورت جب اکٹھے ہوتے ہیں، تنہا ہوتے ہیں، کوئی دیکھنے والا نہیں ہوتا، تو تیسرا شیطان ہوتا ہے ۔  [صحيح مسلم:1341]

کیونکہ شیطان ان کے درمیان سفیر کا کام کرتا ہے۔ ان کے خیالات، ان کے جذبات کو ابھارنا، احساسات پیدا کرنا، وسوسے ڈالنا یہ شیطان کا کام ہے۔چنانچہ یہ بھی پابندی لگائی کہ مرد و عورت اکٹھے نہ ہوں، ہاں اگر محرم ساتھ ہے تو پھر ٹھیک ہے۔ قرآن کریم نے جہاں بدکاری اور زنا کی مذمت فرمائی ہے وہاں یہ بھی فرمایا :

“ولا تقربوا الزنا”.  کہ زنا کے قریب بھی مت جاؤ۔

باقی گناہوں کے بارے میں فرمایا: یہ گناہ نہ کرو، جھوٹ نہ بولو، سود نہ کھاؤ، شراب نہ پیو، لیکن زنا کے بارے میں یہ نہیں کہا کہ زنا نہ کرو ،بلکہ کہا کہ: زنا کے قریب بھی نہ جاؤ۔

اس سے مفسرین یہ استدلال کرتے ہیں ،کہ  وہ اسباب جو کسی انسان کو زنا تک پہنچاتے ہیں وہ بھی حرام ہیں۔ حتٰی کہ نبی کریمﷺ نے اس بات پر بھی پابندی لگائی کہ کسی غیر محرم عورت کو نہ دیکھو اور اگر اتفاقاً نگاہ پڑ گئی ہے تو نگاہ  ہٹا لو۔ [صحيح مسلم:2159]

آنکھ پہلا دروازہ ہے۔ اس کے بعد گفتگو، پھر خلوت، پھر باقی معاملات۔ تو وہ اسباب جن سے گزر کر انسان گناہ تک پہنچتا ہے، شریعت نے وہ بھی حرام قرار دیے ہیں۔

اس لیے ہمارا مشورہ یہی ہے کہ ایسی نوکری سے اجتناب کیا جائے، جہاں مرد و زن کا اختلاط ہو۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ