سوال

میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی تھی، پھر دورانِ عدت ہی میں نے رجوع  کا ارادہ کرلیا، اور بیوی کو گھر لانے کی کوشش کی، والدین کو  دو دفعہ سسرال بھیجالیکن سسرال والے نہ تو بیوی کو بھیجنے پر راضی ہوئے، اور نہ ہی میری اس سے بات کروا رہے ہیں، اب عدت بھی گزر چکی ہےتو کیا میرا رجوع کی کوشش کرنا، رجوع سمجھا جائے گا کہ نہیں؟

 جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

اگر بیوی کو  ایک  یا دو طلاق دیں تو ایسی طلاق کو ”طلاقِ رجعی” کہتے ہیں، طلاقِ رجعی کے بعد  شوہر کے لیے اپنی بیوی کی عدت  میں رجوع  کرنے کا حق ہوتا ہے، اگر عدت میں قولاًیافعلاً  رجوع کرلیا یعنی زبان سے یہ کہہ دیا کہ میں نے رجوع کرلیا ہے  یا ازدواجی تعلقات قائم کرلیے تو اس سے رجوع درست ہوجائے گا  اور نکاح برقرار  رہے گا، اور اگر شوہر نے عدت میں رجوع نہیں کیا تو  پھر نکاح ختم ہوجائے گا۔ بعد ازاں  اگر میاں بیوی باہمی رضامندی سے دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو شرعی  گواہان کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا پڑے گا۔ اور دونوں صورتوں میں(عدت میں رجوع کرے یا عدت کے بعد نکاحِ جدید کرے) شوہر نے اگر اس  سے پہلے کوئی اور طلاق نہ دی ہو تو ایک طلاقِ رجعی دینے کی صورت میں اس کو مزید دو طلاقوں کا اختیار ہوگا، اور اگر دوطلاقیں دیں تو آئندہ ایک طلاق کا اختیار باقی ہوگا۔

صورت مسؤلہ میں اگر خاوند نے رجوع کا اظہار کردیا ہے۔دو گواہوں کے سامنے یہ کہہ دیا ہے کہ میں نے اپنی بیوی سے رجوع کرلیاہے،اگرچہ اس کی بیوی کو اس کے گھر والوں نے نہیں بھیجا یا بیوی کے سامنے نہیں کہا،  تب بھی رجوع ہو گیا ہے، کیونکہ طلاق اور رجوع یہ مرد کا حق ہے، جسے وہ استعمال کرے تو اس کا اعتبار کیا جائے گا۔ہاں اگر رجوع کا خیال اپنے  دل میں رکھا اور اس کا اظہار نہیں کیا تب رجوع نہیں ہوگا۔

هذا ما عندنا والله أعلم بالصواب

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف  سندھو  حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ