سوال

(1) میری پہلی بیوی سے اولاد دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے، اہلیہ فوت ہوچکی ہے، اس کی ملکیت/ وراثت کیسے تقسم ہوگی؟

(2) پہلی بیوی کی وفات کے بعد اس کی ہمشیرہ سے میرا نکاح ہوگیا، دوسری بیوی سے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔  بیٹوں کی عمر بالترتیب 18، 15 اور 7 سال ہے۔ وہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اور چھٹی کے بعد آٹے کی چکی پر تعاون کرتے ہیں۔  بڑا بیٹا بعض اوقات، اور کبھی کبھار اس سے چھوٹے والا دیہاڑی وغیرہ کرلیتا ہے۔

پہلی بیوی سے بڑے بیٹے کو میں نے قرض وغیرہ پکڑ کر سعودی عرب بھجوایا، لیکن ایک سال بعد واپس آگیا، دوبارہ قرض وغیرہ لے کر عراق بھجوایا، جہاں ڈيڑھ سال رہنے کے بعد واپس آگیا، جو اس کی بساط میں تھا، بھیجتا رہا۔ ہم گھر سے اکٹھے تھے، یعنی مال کی آمد ورفت مشترکہ تھی۔

اب وہ بیٹا مطالبہ کر رہا ہے کہ مجھے میرا مال دیں، میں نے بہت پیسے آپ کو بھیجے ہیں۔ میں نے کہا کمائی اورخرچ مشترک رہا ہے، لہذا آپ کا جو حصہ شرعا بنتا ہے، دینے کو تیار ہوں۔ حسبِ شریعت محمدی میری رہنمائی فرمائیں کہ میں اس بیٹے کو کیا یا کتنا حصہ دوں؟ جبکہ میرے دوسرے بیٹے بیٹیاں بھی موجود ہیں۔

( محمد افضل ولد غلام محمد، سکنہ پنگوموڑ، چنیوٹ)

جواب

الحمدلله والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، أما بعد!

(1) بیٹوں کی موجودگی میں بیوی کی وراثت سے خاوند کو چوتھا حصہ ملے گا، قال تعالی:

{فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ} [النساء: 12]

اگر بیویوں کی اولاد ہو تو تمہیں چوتھا حصہ ملے گا۔

جبکہ بقیہ سارا مال اولاد کے لیے ہوگا. بیٹی کو ایک حصہ، جبکہ بیٹوں کو دو دو حصے۔

{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ} [النساء: 11]

اللہ تعالی تمہیں رہنمائی کرتا ہے کہ اولاد کو وراثت دو،  بیٹے کو دو بیٹیوں کے برابر۔

لہذا مسؤلہ صورت میں سہولت کی خاطر مال کو 20 حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، پانچ حصے شوہر کے، چھے ایک بیٹے کے، چھے دوسرے بیٹے کے، اور تین بیٹی کے لیے ۔

(2) بیٹا اگر باپ کو وضاحت کردیتا کہ اس نے جو مال دیا، وہ بطور امانت کے ہے، تو ایسی صورت میں اس کا مطالبہ کسی حد تک درست تھا. لیکن اگر آمد ورفت اور خرچ وغیرہ سب مشترکہ تھا، جیساکہ مشرقی روایات میں ہوتا ہے کہ پہلے باپ کمائی کرکے بیٹوں کو پالتا ہے، پھر بیٹے باپ کو کما کر لا کر دیتے ہیں، تو ایسی صورت میں بیٹا شرعی طور پر مال کا مطالبہ کرنے کا مجاز نہیں ہے۔

ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور شکایت کی کہ اس کا باپ اس کا مال ہڑپ کرجاتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«أَنْتَ وَمَالُكَ لِوَالِدِكَ، إِنَّ أَوْلَادَكُمْ مِنْ أَطْيَبِ كَسْبِكُمْ، فَكُلُوا مِنْ كَسْبِ أَوْلَادِكُمْ» (سنن أبی داود:3530)

تو اور تیرا مال تیرے والد کا ہے، بے شک تمہاری اولاد تمہاری بہترین کمائی ہے، لہذا تم اپنی اولاد کی کمائی سے کھا لیا کرو۔

ایک اور روایت میں ہے:

«أَنْتَ وَمَالُكَ لِأَبِيكَ» (سنن ابن ماجہ:2291)

اہل علم کے ہاں یہ بحث تو موجود ہے کہ باپ بیٹے کے مال میں اپنے مال کی طرح حقِ ملکیت وتصرف رکھتا ہے کہ نہیں، البتہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ باپ بقدر حاجت وضرورت بیٹے کے مال کو استعمال کرلے، تو بیٹا اس کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔ ہاں باپ کے لیے جائز نہیں کہ وہ  کسی بیٹے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے، یا کسی ایک بیٹے کا مال ہتھیا کر دیگر کو نوازتا رہے۔

یہاں یہ اشکال پیدا ہوسکتا ہے کہ مذکورہ حدیث میں ’اجتاح‘ یعنی ’مال ہتھیانے اور ہڑپ کرنے‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، اس کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باپ کے اس عمل کی تصویب فرمائی ہے۔  تو کیا باپ کے لیے ایسا کرنا جائز ہے؟

یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ممکن نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظلم وستم برقرار رکھیں،  البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ باپ اپنے بیٹے کے مال سے بقدر حاجت وضرورت خرچ کرتا تھا، اور بیٹا اسی خرچے کو ’ہتھیانا اور ہڑپ‘ کرنا سمجھتا ہوگا،  لہذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹے کو سمجھایا کہ یہ سوچ درست نہیں، در حقیقت تُو اور تیرا مال تیرے باپ کے لیے حلال ہے، اور وہ تجھے اور تیرے مال کو بقدر حاجت وضرورت ویسے ہی استعمال کرسکتا ہے، جس طرح  اسے اپنے نفس اور مال میں تصرف حاصل ہے ۔ واللہ اعلم۔

علامہ  خطابی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

“إذا احتاج إلى مالك أخذ منك قدر الحاجة كما يأخذ من مال نفسه، فأما أن يكون أراد به إباحة ماله حتى يجتاحه ويأتي عليه فلا أعلم أحدًا ذهب إليه”. ( معالم السنن (3/ 166)

حدیث کا معنی یہ ہے کہ باپ بقدر حاجت وضرورت بیٹے کے مال میں تصرف کرسکتا ہے،  بیٹے کے مال کو ہتھیانا یا برباد کرنا، حدیث کا یہ معنی کسی نے بھی بیان نہیں کیا۔

کئی ایک محدثین نے اس حدیث کو ذکر کرکے  یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ اولاد پر والدین کی ضروریات ومصاریف کو پورا کرنا واجب و ضروری ہے۔

یاد رہے کہ باپ کی ذمہ داری اولاد کی پرورش اور ان کی ضروریات کو پورا کرنا ہے، اگر کوئی بیٹا دودھ پیتا ہے، تو اس کے دودھ کا بندوبست باپ کی ذمہ داری ہے، اگر کوئی بیٹا  تعلیم حاصل کر رہا ہے، تو اس  کے اخراجات باپ کے ذمہ ہیں ، ضروریات میں مساوات کرنا بھی فرض نہیں، البتہ اگر بطور ہدیہ اور تحفے کے کچھ دیا جائے، تو اس میں مساوات ضروری ہیں، اور اس میں مذکر ومؤنث کا بھی فرق نہیں ہوگا۔

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کے والد نے انہیں ایک غلام ہدیہ کیا، انہوں نے کہا کہ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو  گواہ بنالیں، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے، تو آپ نے پوچھا: آپ کی اس کے علاوہ بھی اولاد ہے؟ کہا: جی ہاں، فرمایا: ان سب کو بھی یہ تحفہ دیا ہے؟  عرض کیا: نہیں، آپ نے فرمایا: میں ظلم پر گواہ نہیں بن سکتا،  یا تو سب کو دیں، یا پھر اس کو بھی واپس کریں، لہذا نعمان رضی اللہ عنہ سے وہ تحفہ واپس لے لیا گیا۔ ( صحیح بخاری:2586،2587،2650)

خلاصہ کلام یہ ہوا کہ بیٹا باپ سے تین میں سے ایک صورت میں مال لے سکتا ہے:

1۔  بیٹے کی پڑھائی لکھائی یا روز مرہ ضرورت ہو  ، اس پر باپ حسب ضرورت واستطاعت خرچ کرے گا۔

2۔ باپ تحفہ دے، لیکن اس میں سب اولاد میں برابری ضروری ہوگی۔

3۔ بیٹے نے باپ کے پاس امانت رکھوائی ہو۔

صورت مسؤلہ  تینوں میں سے کوئی بھی نہیں، لہذا بیٹے کا مطالبہ بھی درست نہیں، اور باپ کا اسے الگ سے پیسے دینا بھی جائز نہیں ہے۔

واللہ أعلم بالصواب۔

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ  (رئیس)

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ