سوال

میں ایک اشٹام فروش اور وثیقہ نویس ہوں، ہمارے پاس لوگ زمین کی رجسٹری کے لیے آتے ہیں۔ رجسٹری فیس زمین کی قیمت  کے حساب سے 6 فیصد سرکاری اداروں میں جمع کروانی ہوتی ہے، جبکہ ایک فیصد ہماری ہوتی ہے۔ لیکن لوگ زمین کی قیمت کم لکھواتے ہیں، تاکہ انہیں فیس کم دینی پڑے، اور اس میں حلفیہ بیان دیتے ہیں کہ ہم نے یہ زمین اتنے کی خریدی ہے۔حالانکہ اس کی اصل قیمت اس سے زیادہ ہوتی ہے۔ مثلا ہمارے علاقے میں ایک ایکڑ کا سرکاری ریٹ 32 لاکھ ہے، لیکن  اس کی خرید و فروخت کروڑ روپے تک چلی جاتی ہے۔کیا اس طرح کم ریٹ لکھوانا درست ہے؟اسی طرح ہمیں لوگوں کے کام کروا کے دینے کے لیے سرکاری اداروں اور دفتروں میں 6 فیصد فیس سے اضافی پیسے بھی دینے پڑتے ہیں۔ کیا ہم اس وجہ سے لوگوں سے زیادہ فیس کا مطالبہ کرسکتے ہیں؟ تاکہ ہمارے اخراجات بھی نکل آئیں، اور ہمیں بچت بھی ہوسکے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

کچہریوں میں جب کوئی پلاٹ،مکان،یا جگہ رجسٹری کروائی جاتی ہے۔تو وہاں چار قسم کی فیسیں ادا کرنا پڑتی ہیں:

1:بینک سے اشٹام نکلوائے جاتے ہیں جن پر رجسٹری کے لئے خاص قسم کی تحریر لکھی ہوتی ہے۔

2: یونین کونسل یا میونسپل کمیٹی کے جو ترقیاتی اخراجات ہوتے ہیں ان کی اپنی فیس ہوتی ہے۔ جس کی باقاعدہ رسید ہوتی ہے۔

3: محکمہ مال کے جو اہلکار ہیں۔ ان سے رجسٹری پاس کروانے کے لیے یا انتقال کروانے کے لیے ان کو بھی کچھ نہ کچھ دینا ہوتا ہے۔چھ فیصد کے اندر اندر یہ سارے کام کروانے ہوتے ہیں۔

4: اشٹام فروش یاوثیقہ نویس کو دینی پڑتی ہے۔  جو کل مالیت کے اعتبار سے ایک فیصد دینی ہوتی ہے۔اور ہوتا یوں ہے کہ گورنمنٹ نے ہر علاقے کے اعتبار سے ریٹ مقرر کر رکھا ہوتا ہے۔اس ریٹ کے کم پر رجسٹری نہیں ہوتی۔ہر علاقے کے محلے وقوع یاویلیو کے اعتبار سے الگ الگ ریٹ ہوتے ہیں۔

لوگ ایسا کرتے ہیں ان فیسوں سے بچنے کے لیےکم مالیت کی رجسٹری لکھواتے ہیں۔

یہ درست نہیں، اس میں کئی ایک قباحتیں ہیں، مثلا:

  1. یہ جھوٹ اور غلط بیانی ہے ۔ کیونکہ قیمت زیادہ وصول کی ہوتی ہے اور اشٹام فروش کو فیس سے بچنے کے لیے کم قیمت لکھوائی جاتی ہے۔
  2.  بلکہ اس میں بیان حلفی بھی جاری کرنا پڑتا ہے۔ کہ میں نے اتنے کی بیچی ہے یا اتنے کی خریدی ہے۔ توگویا جھوٹی قسم اٹھائی جاتی ہے۔
  3. اس میں نقصان کا امکان بھی ہوتا ہے،مثال کے طور پر اگر کوئی شفعہ کر دے تو شفعہ تو اتنے کا ہی ہوگا جتنے کی اس نے رجسٹری کروائی ہے۔
  4. اس میں حکومتِ وقت کے ساتھ بھی خیانت ہے، کیونکہ اگر حقیقی قیمت لکھوائی جائے، تو جتنی فیس گورنمنٹ کے کھاتے میں جانی چاہیے، اتنی جاتی نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا ہے:

“لا تظلمون ولا تظلمون”. [سورۃ البقرہ: 279]

نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ کوئی تمہارے اوپر ظلم کرے۔

اور اسی طرح حدیث میں بھی اس کی وضاحت موجود ہے:

“فَأَعْطِ كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ”. [بخاری:1968]

اور تم ہر حقدار کو اس کا حق ادا کرو۔

باقی رہا اشٹام فروش یا وثیقہ نویس اس کا ایک فیصد پر گزارا نہیں ہوتا تو وہ زیادہ کا مطالبہ کر سکتا ہے۔لیکن یہ مطالبہ اعتدال اور ایمانداری سے ہونا چاہیے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الرؤف بن  عبد الحنان حفظہ اللہ