سوال

آجکل شادی سے پہلے ایک رسم مہندی ادا کی جاتی ہے۔لڑکے والے بھی ادا کرتے ہیں اور لڑکی والے بھی ادا کرتے ہیں۔اس میں خاص قسم کا لباس لڑکی کو پہنایا جاتا ہے۔اور تمام اہل خانہ بھی اسی رنگ کا لباس پہنتے ہیں۔اور اس رسم میں  طرح طرح کے کھانے بھی پکائے جاتے ہیں۔کیا اس رسم مہندی کا قرون اولی میں رواج تھا ؟یا ہمارے اسلاف سے اس کا کوئی ثبوت ملتا ہے۔اس کی وضاحت فرما دیں۔

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

رسم مہندی کے بارے میں یہ سوال پوچھا گیا ہے،  کہ اگر اس میں ناچ گانا نہ ہواور مووی وغیرہ بھی نہ بنائی جائے۔ اس کے کرنے میں کیا حرج ہے؟اس میں سب سے بڑا حرج یہی ہے کہ یہ رسم مسلمانوں کی نہیں بلکہ ہندوؤں سے مسلمانوں میں آئی ہے۔اوراس کو جتنا بھی آپ خرافات سے پاک کرلیں یہ رسم ہندوؤں کی ہی رہے گی۔اورکافروں کی مشابہت اختیار کرنے پر وعید ہے۔جیسا کہ رسول ِ کریم نے فرمایا ہے:

“من تشبَّهَ بقومٍ فهوَ منهم”. [ابوداؤد: 4031]

جو بھی کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں سے ہوگا۔

قرونِ اولی میں اس قسم کی رسموں کا کوئی رواج نہیں تھا۔اور اس میں قباحتیں بھی بہت ساری ہیں۔ یعنی مرد و زن کا اختلاط، مووی کا بننا،اور پھر مخصوص قسم کا لباس لڑکے اور لڑکی والوں کا پہننا ،پیسوں کا لینا دینا،اگر ان میں سے کوئی قباحت نہ بھی ہو،تب بھی اس رسم کا اسلامی معاشرہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔لہذا اس رسم کو ترک کیا جائے مسلمان کی یہ شان نہیں کہ قرآن و سنت کو چھوڑ کر رسومات اور بدعات کے پیچھے پڑیں۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الرؤف بن  عبد الحنان حفظہ اللہ