سوال

میرے سسرال اور میرے خاندان کا آپس میں کوئی جھگڑا تھا، جس کے سبب میرے سسرال والے آئے، اور میری بیوی کو سامان سمیت لے گئے، اور پھر میرے والد صاحب سے مطالبہ کرنا شروع کردیا کہ ہماری بیٹی کو طلاق دو، ہماری پنچائتیں بھی ہوئیں، بہرصورت گھر والوں کے کہنے پر آج سے تقر یبا دو ماہ دس دن پہلے میں نے اپنی بیوی کو ایک ہی بار تین دفعہ طلاق دے دی، اب  میری جب بیوی سے براہ راست بات ہوئی تو پتہ چلا ہے کہ ہم دونوں میاں بیوی طلاق نہیں چاہتے تھے، بلکہ ہمارے والدین نے یہ طلاق کروائی ہے، اب ہم چاہتے ہیں کہ رجوع کرلیں، تو کیا اس کی کوئی صورت موجود ہے؟

جواب

الحمدلله والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، أما بعد!

  • مسئلہ طلاق بڑی نزاکت کا حامل ہے لیکن ہم لوگ اس سلسلہ میں بہت لاپرواہ  واقع  ہوتے ہیں ،  خاندانی چپقلش اور گھریلو ناچاکی کی بنیاد پر دو گھر اجاڑنے میں ہم ذرا دیر نہیں لگاتے ۔ یہ ایک مکروہ وناپسندیدہ رویہ ہے کہ آپ لین دین یا کسی معاشرتی اختلاف کے سبب خود یا اپنے بیٹے بیٹی کو طلاق پر مجبور کردیں، لہذا صورتِ مسؤلہ میں سائل کے بقول اگر تو لڑکے لڑکی کے والدین نے انہیں دھوکے سے طلاق دلوائی ہے، تو  انہیں اللہ تعالی سے اس  گناہِ عظیم کی معافی مانگنی چاہیے۔ اور اگر لڑکا لڑکی خود اپنی صوابدید پر یہ غلطی کرچکے ہیں، اور  اب اپنے والدین کو ذمہ دار ٹھہرا  رہے ہیں، تو انہیں کسی پر الزام تراشی کی بجائے اپنی غلطی کا اعتراف کرنا چاہیے۔ جو حقیقت میاں بیوی کے لیے ابھی کھلی ہے، بہت اچھا ہوتا کہ پہلے ہی اس انداز سے ایک دوسرے سے بات کلیئر کرلی جاتی، تاکہ معاملہ طلاق تک پہنچتا ہی نہیں، اور یوں شیطان کو خوش ہونے کا موقعہ نہ ملتا۔
  • اگر خدانخواستہ طلاق تک نوبت آ بھی جائے، تو درست طریقہ یہ ہے کہ  ایک طلاق دے کر چھوڑ دیا جائے، اکٹھی تین طلاق دینے والا طریقہ رسول اللہ ﷺ کو انتہائی ناپسند تھا، آپﷺ نے اس انداز سے طلاق دینے کو اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل  اور مذا ق قرار دیا ہے (سنن نسائی،الطلاق:3430)
  • بہرصورت کتاب وسنت کی رو سے ایک مجلس میں دی ہوئی بیک وقت تین طلاقیں دینے سے ایک رجعی طلاق ہوتی ہے بشرطیکہ طلاق دینے کا پہلا یا دوسرا موقعہ ہو ۔دلائل حسب ذیل ہیں:

1۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے عہدِ نبوت ،سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ   کے زمانہ خلافت اور سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو سالہ دور حکومت میں  تین طلاقیں ، ایک طلاق کا حکم رکھتی تھیں ،لیکن کثرتِ طلاق کی وجہ سے سیدنا عمررضی اللہ   عنہ نے کہا کہ لوگوں نے اس معاملہ میں جلدی کی جس میں ان کے لیے نرمی اور آسانی تھی ،اگر میں اسے نافذ کردوں تو بہتر ہے ۔اس کے بعد انہوں نے اسے نافذ کر دیا (صحیح مسلم، الطلاق،1472) تاہم  سیدنا عمررضی اللہ  کا یہ اقدام تعزیری وانتظامی نوعیت کا تھا  ،  جیسا کہ اس بات کو کئی ایک حنفی اکابرین  نے بھی  تسلیم کیا ہے۔(ملاحظہ ہو: جامع الرموز کتاب الطلاق اور حاشیہ طحطاوی  على الدر المختار)

2۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں سیدنا رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں  تین طلاقیں دے دیں ۔لیکن اس کے بعد بہت افسردہ ہوئے رسول اللہ ﷺ نے  ان سے پوچھا کہ تم نے  اسے طلاق کس طرح دی تھی ؟عرض کیا:تین مرتبہ۔ آپﷺ نے دوبارہ پوچھا:  ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی تھیں ؟عرض کیا! ہاں۔  آپ ﷺ نے فرمایا: پھر یہ ایک ہی طلاق ہوئی ہے اگر تم چاہو تو رجوع کر سکتے ہو ۔،،راوی حدیث سیدنا ابن عباس رضی اللہ   عنہ کے بیان کے مطابق انہوں نے رجو ع کر کے  اپنا گھر آباد کر لیا تھا۔( مسند احمد:ص 123/4 ، ت: احمد شاکر  )

اس حدیث کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

هذا الحدیث نص فی المسئلة لایقبل التاؤیل. (فتح الباری : 362/ 9)

یہ حدیث مسئلہ طلاق ثلاثہ  کے متعلق ایک فیصلہ کن دلیل  کی حیثیت رکھتی ہے جس کی  کوئی تاؤیل نہیں کی جاسکتی ۔

  • بعض علمائے احناف نے بھی دلائل کے پیش نظر ان احادیث کے مطابق فتوی دیا ہے۔ ان علما میں مولانا پیر کرم شاہ ،مولانا عبدالحلیم قاسمی، مولانا حسین علی واں بھچراں ،مولانا احمد الرحمٰن اسلام آباد اور

پروفیسر محمد اکرم ورک سرِفہرست ہیں ۔ ان کے فتاویٰ کی تفصیل( ایک مجلس میں تین طلاق ) نامی کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے۔ بہرحال ان حقائق کی روشنی میں ایک باغیرت مسلمان کے لیے گنجائش ہے کہ اگر اس نے ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی ہیں تو دورانِ عدت بلاتجدیدِ نکاح رجوع کر سکتا ہے ،اور اگر عدت گزر چکی ہے تو بھی تجدید ِنکاح سے اپنا گھر آباد کرسکتا ہے ۔قرآن و حدیث کا یہی فیصلہ ہے اس کے علاوہ ہمارے ہاں رائج الوقت عائلی قوانین اور دیگر اسلامی ممالک میں بھی یہی فتوی دیا جاتاہے۔

  • مذکورہ بالا تفصیل سے واضح ہوا کہ آپ کی طرف سے ایک طلاق ہوگئی ہے،اور جیسا کہ آپ نے بتایا کہ ابھی  طلاق دی کو دو ماہ دس دن ہوئے ہیں، تو بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ  ابھی عدت ( جو کہ تین حیض ہوتی ہے)  جاری ہے، جس کے  اندر اندر آپ اپنی بیوی سے رجوع کرسکتے ہیں، ہاں  اگر عدت ختم ہوجائے تو پھر دوبارہ ملنے کے لیے نکاح کرنا ضروری ہوتا ہے۔ (صحیح بخاری:5130)
  • ہم آپ کو یہ گزارش بھی کرنا چاہتے ہیں کہ اللہ رب العالمین کے ساتھ اپنے تعلقات کو درست رکھیں۔ نماز، روزہ، ذکر واذکار اور تلاوتِ قرآن کریم کی پابندی کیا کریں، وقتا فوقتا صدقہ وخیرات، اور رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئیں۔ ان نیکیوں کی برکت سے امید ہے اللہ تعالی آپ کے تمام مسائل اور پریشانیوں کو حل فرمادیں گے۔ ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ سب اہل خانہ کو سعادتمندی اور نیکی وتقوی سے بھرپور لمبی زندگی عطا فرمائے۔ آمین۔

مفتیان ِکرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ  (رئیس اللجنۃ)

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر حافظ إسحاق زاہد حفظہ اللہ