سوال

دورانِ سفر مین روڈ ،جوکہ کافی مصروف روڈ ہے، کی سائیڈ سے 2110 روپے ملے ہیں، جو کہ یقینا کسی مسافر کے جیب سے موبائل وغیرہ نکالتے گرے ہونگے۔ قریب قریب کوئی آبادی بھی نہیں۔ اب ان پیسوں کا اعلان کس طرح کیا جائے؟ اور اس لقطہ کا کیا کیاجائے؟

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

رستے میں کسی کی  گمشدہ چیز  کسی کو ملے تو شریعت میں اس کو” لقطة” کہتے ہیں، جس کے متعلق  احادیث میں تفصیلی رہنمائی ہے، اگر جاندار چیز ہو، وہ اپنی حفاظت خود کرسکتی ہو، تو اسے نہیں پکڑنا چاہیے، اور اگر نقدی وغیرہ ، یابے جان قیمتی چیزیں ہوں، تو انہیں اٹھا کر ان کے مالک تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے، مختلف جگہوں پر ایک سال تک اعلان کروانا چاہیے۔

لیکن اگر رستے میں ملی ہوئی  چیز زیادہ قیمتی نہ ہو، جیسا کہ مسؤلہ صورت میں ہے،  اگر تو آسانی سے اس کے مالک کا پتہ ہو، تو اسے پہنچا دیں، ورنہ محتاط اور بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ   اس رقم کو صدقہ کردیں، اور نیت کریں کہ اس کا ثواب اس شخص کو پہنچ جائے، جس کے یہ پیسے ہیں ۔

ایسی چیز کو صدقے کرنے سے متعلق بعض آثار سے رہنمائی ملتی ہے۔

ابن مسعود رضی اللہ عنہ  سے ثابت ہے کہ آپ نے ایک لونڈی خریدی، لیکن رقم ادا کرنے سے پہلے اس کا مالک لاپتہ ہوگیا، آپ  نے ایک سال تک اسے تلاش کیا، اور بعد میں اس کی قیمت کو تھوڑا تھوڑا کرکے صدقہ کردیا، اور فرمایا: یا اللہ  یہ اس کی طرف سے صدقہ ہے، لیکن اگر وہ آگیا، تو پھر صدقہ میری طرف سے ہوجائے گا، اور میں اسے رقم ادا کردوں گا۔ اور پھر فرمایا کہ یہی حکم ” لقطة”  یعنی رستے  وغیرہ سے  ملی ہوئی چیز کا ہے۔

[مصنف ابن ابی شیبۃ: 21630، مصنف عبد الرزاق:18631،الأوسط لابن منذر:11/325،  تغلیق التعلیق:4/469]

امام ابن ابی شیبہ اور امام عبد الرزاق نے اسے” لقطة” كے باب میں ذکر کیا ہے، جبکہ صحیح بخاری[7/ 50] میں یہ ’باب حکم المفقود‘ میں مذکور ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہی موقف ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی بسندِ صحیح ثابت ہے۔ [فتح الباری:9/431]

والله أعلم بالصواب

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف سندھو حفظہ اللہ