سوال

سلف سے کون لوگ مراد ہیں؟ اور منہج سلف اور فہم سلف سے کیا مراد ہے؟ اور کیا دین میں فہمِ سلف اور منہج سلف کی اتباع ضروری ہے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

  • سلف کا معنی ہےگزرے ہوئے نیک لوگ۔ہر پہلے آنے والابعد میں آنے والے کے لحاظ سے سلف ہے،لیکن جب سلف مطلق طور پر بولا جاتا ہےتواس سے مراد بہترین تین زمانے کے لوگ ہیں،جن کی گواہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےدی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“خَيْرُ أُمَّتِي الْقَرْنُ الَّذِينَ يَلُونِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ”. [بخاری:۲۶۵۲، مسلم :۲۵۳۳]

’میری امت کے بہترین لوگ میرے زمانے کے لوگ ہیں، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آنے والے ہیں ‘۔

شارحینِ حدیث نے لکھا ہے کہ اس حدیث سے مراد بالترتیب صحابہ، تابعین اور تبع تابعین ہیں۔ [فتح الباری:۷؍۵]

لہذا سلف سے مراد صحابہ،تابعین اور تبع تابعین ہیں یہی سلف صالحین ہیں۔جبکہ ’منہج‘ عربی زبان میں اس راستے کو کہا جاتا ہے ، جو بالکل واضح، روشن اور سیدھا ہو۔

منہجِ سلف  کو اختیار  کرنے والے سلفی کہلاتے ہیں، اگرچہ ان کا زمانہ بعد میں ہے۔

  • قرآن و سنت کو سلف کے منہج کے مطابق سمجھنے کا مطلب ہے کہ ان دونوں سے استدلال  واستنباط کے جن اصولوں پر صدیوں سے علماء کا اتفاق ہو چکا ہے ، ان سے باہر جانا جائز نہیں ۔ جو ان کے فہم سے باہر نکلے گا ، اس کے پاس قرآن یا سنت کے ظاہری لفظ چاہے ہوں ، لیکن ان کی حقیقی تطبیق و تعبیر سے وہ محروم ہوگا ۔ کیونکہ قرآن وسنت جس طرح ایک نظری چیز ہے ، اسی طرح علمی اور تطبیقی چیز بھی ہے۔ مسلمانوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے ’ نظریات ‘ بھی لیے ہیں ، اور ان کی ’ عملی پریکٹس ‘ یعنی تطبیق بھی سیکھی ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

“عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَائِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ، تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ”. [سنن أبی داؤد:۴۶۰۷]

’ میری  سنت  اور میرے خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے تھام لو ‘۔

یہاں ’سنت‘ سے مراد وہ طریقہ  ہے جو اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور ان کے طریقے سے موافق اور مطابق ہے۔یہ مفہوم نہیں کہ خلفائے راشدین کی کوئی الگ سنت ہے جس کی اتباع کی جائے گی۔

اس کی وضاحت ابن حزم رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ  سلف کے ما بین اختلاف ہو تو تین میں سے کوئی ایک صورت ہوسکتی ہے:اول : سب کی پیروی کی جائے ۔ اور یہ عقلا محال ہے۔دوسرا : جس کی دل چاہے مان لی جائے باقی کو چھوڑ دیا جائے ۔ یہ شرعا محال ہے کیونکہ دین کسی کے مرضی پر مبنی نہیں ہے ۔ ویسے بھی کسی ایک کی بات کو مان لینا اور باقی سب کو چھوڑ دینا یہ ان کی سنت کی پیروی نہیں کہلائے گا ۔ تیسری صورت بچتی ہے کہ جن مسائل پر ان کا اتفاق ہے اس کی اتباع کی جائے ۔ (الإحکام فی أصول الأحکام لابن حزم :6/76)

صحابی رسول عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

“إنَّ الله نظَرَ في قلوب العباد، فوجد قلبَ محمَّدٍ خيرَ قلوبِ العباد، فبَعَثه برسالته، ثمَّ نظر في قلوبِ العبادِ بعد قلبِ محمَّدٍ، فوجد قلوبَ أصحابه خيرَ قلوبِ العباد، فاختارهم لصُحبةِ نبيِّه ونُصرةِ دينه؛ فما رآه المسلمون حَسَنًا فهو عند الله حَسَنٌ، وما رآه المسلِمون قبيحًا فهو عند اللهِ قبيحٌ”. [مسند الطيالسي:243]

’اللہ تعالی نے  بندوں کے دلوں میں دیکھا، اور ان سب میں  محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو افضل پایا، اور آپ کو رسالت کے لیے منتخب کرلیا۔ پھر دوبارہ دیکھا، تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام کے دلوں کو سب سے بہتر پایا، تو انہیں نبی کریم کی صحبت، دین کی نصرت کے لیے اختیار کرلیا۔ پس جس چیز کو یہ مسلمان اچھا سمجھیں، وہ اللہ کے ہاں بھی اچھا ہے، اور جسے یہ ناپسندیدہ خیال کریں، وہ اللہ کے ہاں بھی ناپسندیدہ ہے‘۔

رازدانِ رسول حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

“كلُّ عبادةٍ لم يتعبَّدْها أصحابُ محمَّدٍ -رضي الله عنه- فلا تَعبَّدوها؛ فإنَّ الأوَّلَ لم يدَعْ للآخِرِ مَقالًا؛ فاتَّقوا اللهَ يا مَعشرَ القُرَّاءِ، وخذوا بطريقِ من كان قبلَكم”. [الزهد لابن المبارك:47]

’جو بھی عبادت صحابہ کرام نے نہیں کی، تم بھی نہ کرو، کیونکہ پہلوں نے بعد والوں کے لیے کسی بات کی گنجائش نہیں چھوڑی، لہذا اللہ سے ڈرو، اور سلف صالحین کے رستے پر گامزن رہو‘۔

خوارج نے جب قرآنِ کریم کی آیات کا من مانا مفہوم نکالنے کی کوشش کی، تو مفسرِ قرآن عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

“أتيتُكم من عند أصحابِ النَّبيِّ -رضي الله عنهم-: المهاجرينَ والأنصارِ، وعليهم نزل القرآنُ؛ فهم أعلَمُ بتأويلِه منكم”. [سنن النسائي:8522]

’ میں تمہارے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ کے صحابہ مہاجرین و انصار کے پاس سے آیا ہوں، جن پر قرآن کریم نازل ہوا تھا، اور وہی اس کی تفسیر کو تم سے بہتر جانتے ہیں‘۔

امامِ اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

“اصبر نفسَك على السُّنَّة، وقِفْ حيث وقف القومُ، واسلُكْ سبيلَ السَّلَفِ الصَّالح؛ فإنَّه يَسَعُك ما وَسِعَهم، وقُلْ بما قالوا، وكُفَّ عما كفُّوا، ولو كان هذا خيرًا ما خُصِصتم به دون أسلافِكم؛ فإنه لم يُدَّخَر عنهم خيرٌ خُبِّئ لكم دونهم؛ لفضلٍ عندكم”. [الشريعة للآجري:294]

’سنت پر قائم  رہو، اور جہاں سلف صالحین رک جائیں، رک جاؤ، اور ان کے رستے کو اختیار کرو، جو ان کے لیے جائز ہے، وہی آپ کے لیے بھی جائز ہے،  جہاں وہ کلام کریں، آپ بھی کریں، جس سے وہ گریز کریں، اس سے اجتناب کریں، اگر کوئی چیز خیر ہوتی،  سلف صالحین کو چھوڑ کر، اللہ تعالی نے تمہارے لیے کوئی خیر خاص نہیں کی‘۔

خلاصہ کلام یہ ہوا کہ مسلمان سے مطلوب قرآن وسنت کی اتباع ہی ہے، لیکن  شرعی نصوص و دلائل کے من مانے مفہوم کی بجائے سلف صالحین کے منہج اور فہم  کو مدِ نظر رکھنا ضروری ہے، تاکہ انسان الفاظ کے ظاہر سے دھوکہ کھا کر گمراہیوں میں نہ الجھ جائے۔

منہج سلف کی وضاحت اور حجیت پر عربی اور اردو میں کئی ایک کتب لکھی جاچکی ہیں، تفصیل کے لیے انہیں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ