سوال

ایک آدمی کی مارکیٹ ہے،جو اس نے کرایہ پر دی ہوئی ہے. اور اس میں مختلف لوگ کام کرتے ہیں، جیسے سودی کاروباروغیرہ۔  تو کیا مالک سے اس کے بارے پوچھا جائے گا، مطلب وہ اس گناہ میں شریک ہوگا؟ اسى  طرح جو آن لائن websiteپر کام کرتے ہیں،جس میں سودی کاروبار کرنے والے بھی ہوتے ہیں،اورwebsite ان سے کرایہ لیتی ہے۔تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟وضاحت فرما دیں۔

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

  • جب بھی کوئی آدمی کاروبار کرتا ہے تو اس کا مقصد صرف دولت اکٹھی کرنا نہ ہو۔بلکہ اس کے اور بھی بہت سے تقاضے ہیں جن کو پورا کرنا مسلمان کے لئے ضروری ہے۔ان میں ایک اصول تو خود قرآن کریم نے بیان کیا ہے:

(وَتَعَاوَنُـوْا عَلَى الْبِـرِّ وَالتَّقْوٰى ۖ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْـمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللّـٰهَ ۖ اِنَّ اللّـٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ)

(سورۃ المائدہ:2)

کہ ایک دوسرے سے تعاون کرو نیکی اور بھلائی کے کاموں میں، اور گناہ کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون نہ کرو۔

  • ایک آدمی جب مارکیٹ بناتا ہے تو صاف ظاہر ہے اس نے اپنی دکانوں کو کرائے پر بھی دینا ہے۔ لیکن وہ ایسے شخص کو دکان کرایہ پر نہ دے جس کا کام ’خالص حرام‘  یعنی صرف حرام پر ہی مشتمل ہو۔مثال کے طور پر جوا خانے کے لئے یا شراب کی خرید و فروخت کے لئے، یا ایسا بینک جو سود کا کام کرتا ہے، ایسے لوگوں کو جگہ دینا صحیح نہیں ہے۔  ’صرف حرام‘  کی شرط اس لئے لگائی ہے کہ عام طور پر جو دکان دار ، یا کریانہ  وغیرہ والے، جن کی اکثریت اور غالب چیزیں جائز اور حلال ہوتی ہیں وہ    اگر کچھ چیزیں ایسی رکھتے ہیں جو شریعت کی نظر میں صحیح نہیں ہیں، مثال کے طور پر سگریٹ ،نسوار وغیرہ  ۔ ایسے لوگوں کو  جگہ یا دکان وغیرہ دینے میں کوئی حرج نہیں، اگرچہ بعض نیک اور صالح مالکان ایسے لوگوں کو بھی دکان نہیں دیتے، جو کہ انتہائی قابلِ تحسین  جذبہ ہے۔
  • لہذا کرائے پر دینے سے پہلے پوچھ لینا چاہیے، اورجو لوگ صرف حرام کام کرنے کے لیے دکان، مکان لینا چاہتے ہیں، ان سے معذرت کرلینی چاہیے ۔صورت مسئولہ میں جو لوگ دکانوں پر بیٹھ کر سود کا یا کسی بھی قسم کا حرام کام کر رہے ہیں، ان کو وارننگ دی جائے ،اگر وہ باز آ جائیں تو ٹھیک، ورنہ انہیں وہاں سے نکال دیا جائے، اور اگر ایک خاص مدت  کا معاہدہ  اورایگریمنٹ   کی پابندی کا مسئلہ ہو، تو اس کے ختم ہوتے  ہی ان کو اٹھا دیا جائے۔اگر مارکیٹ مالکان صرف پیسہ بنانے کے لئے خاموش ر ہیں، تو وہ اس حرام کام کے گناہ میں برابر کے شریک ہوں گے۔

بلکہ صحابہ کرام  سےتو یہاں تک ثابت ہے کہ وہ حرام کاری کے اڈوں کو جلا دیتے تھے،  جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے  ثابت ہے،کہ انہوں نے رُوَیشِد ثقفی  ایک شخص کے گھر کو جلا دیا تھا۔کیونکہ وہ اس میں شراب بیچا کرتا تھا۔ [مصنف عبد الرزاق:17039]

اسی طرح حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی روایت ہے انہوں نے ایک بستی کو جلوا دیا تھا، جس میں شراب بیچی جاتی تھی۔ [الأموال لأبي عبيد،ص:47، رقم:268، والحسبة لابن تيمية،ص:54]

بہرصورت ایسی جگہوں  کی توڑ پھوڑ کرنا، یا جلانا تو مقتدر اداروں کی ذمہ داری ہے، البتہ ہم اپنی جگہ، دکان، مکان سے ایسے لوگوں کو نکال سکتے ہیں۔

  • جہاں تک ویب سائٹ کا مسئلہ ہے تو اس  کا حکم بھی سابقہ ہی ہے، جو اچھے یا جائز کام کرنے والے ہیں، انہیں اس میں کام کرنے کی اجازت دینی چاہیے، اور جو برے، گندے یا حرام کام، یا سودی، اور جوئے بازی جیسے کام ، یا  حرام وناجائز کاروبار یا خرید و فروخت کرنا چاہتے ہیں، ان کو ایسے کاموں کی قطعا اجازت نہیں دینی چاہیے۔ اگر وہ پہلے سے موجود ہیں، تو معلوم ہونے پر ان کو وارننگ دی جائے، پھر بھی باز نہ آئیں تو ان کی آئی ڈی بلاک کی جائے، اکاؤنٹ ڈیلیٹ کیا جائے، اور ان کی رجسٹریشن  معطل کی جائے، ورنہ ویب سائٹ مالکان اس گناہ میں شریک  ہوں گے، اور اس گناہ کے وبال کے مستحق ٹھہریں گے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  حافظ عبد الرؤف  سندھو حفظہ اللہ