سوال

ایک عورت جو خود مختار ہو، وہ اپنا نکاح خود کر سکتی ہے؟ وہ بیوہ  ہے، اولاد  یعنی بیٹے بیٹیاں بھی ہیں ۔دوسری طرف مرد بھی خود مختار ہے، شادی شدہ  ہے ،پہلی بیوی سے چھپ کر نکاح ہوا، مرد نے خود پڑھایا ہے۔ عورت کے بچوں کو بھی نہیں پتہ، عدالتی کاروائی بھی نہیں ہے، اور نکاح فارم وغیرہ بھی نہیں ہے۔ کیا یہ نکاح درست ہے ؟

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

  • کسی بھی مرد کے لیےحلال نہیں کہ وہ عورت سے اس کے ولی کے بغیر شادی کرے ۔چاہے وہ عورت کنواری ہو یا شادی شدہ ۔ اس کے دلائل  مندرجہ ذيل ہیں:

اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :

“فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ”. [سورۃ البقرہ:232]

’ تو تم  انہیں اپنے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو۔

اورایک دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمایا :

“وَلَا تَنكِحُواْ ٱلْمُشْرِكَٰتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ ۚ وَلَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكَةٍۢ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ ۗ وَلَا تُنكِحُواْ ٱلْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُواْ “.[البقرة: ٢٢١]

’اور تم مشرک عورتوں سے نکاح مت کرو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں، اور مؤمنہ باندی زیادہ بہتر ہے مشرکہ عورت سے اگرچہ وہ (مشرکہ عورت) تمہیں پسند کیوں نہ ہو، اور تم (مسلمان عورتوں کا) نکاح نہ کراؤ مشرک مردوں سے یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں “۔

ان آیات میں عورت کے ولی کو عقدِنکاح کے بارہ میں مخاطب کیا  گیا ہے ۔اوراگر معاملہ ولی کی بجائے، صرف عورت  سے متعلق ہوتا، تو پھر اس کے ولی کو مخاطب کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔

ابوموسی اشعری  رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

“لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ”.[ سنن ابوداود: 2085]

’ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا‘۔

اورام المومنین عائشہ رضى اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں، کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ “.[سنن ابوداود : 2083]

’ جوعورت بھی اپنے ولی کے بغیر نکاح کرے اس کا نکاح باطل ہے ۔اس کا نکاح باطل ہے ۔ اس کا نکاح باطل ہے‘۔

  • البتہ ولی اور سر پرست  کو چاہیے کہ وہ سختی  کرتے ہوئے رکاوٹ نہ بنے۔ ولی اس لیے نہیں ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیٹی یا بہن پر جبر وزبردستی کرے،  بلکہ ولی کا وظیفہ یہ ہے کہ  لڑکی کی رضامندی کو سامنے رکھتے ہوئے ، کسی مناسب ترین رشتہ کا  انتخاب کرے، اور لڑکی کو بھی چاہیے کہ  جلدبازی  میں کوئی جذباتی فیصلہ کرنے کی بجائے ولی کی مدد واجازت کے مطابق  چلے، کیونکہ شریعت نے  ایک کامیاب وبہترین  نکاح کے لیے لڑکی کی رضامندی اور ولی کی اجازت دونوں کو بنیادی حیثیت دی ہے۔

اس سب کے باوجود اگر ولی  کسی مناسب رشتے پر رضا مند نہ ہو  تو کیا وہ اپنا حقِ ولایت کھو بیٹھتا ہے ؟کیا ایسی صورت میں  ولایت کےاختیارات کسی دوسرے ولی کو منتقل ہو سکتے ہیں ؟

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ مُرْشِدٍ (السنن الصغير للبيهقي:2376، وحسن إسنادَه ابن حجر فی الفتح (9/ 191)

یعنی نکاح کےلیے ’ولی مرشد‘  کا ہوناضروری ہے ۔

اور ’مرشد ‘ یعنی سمجھدار اسے کہیں گے، جو لڑکی کا خیر خواہ  و ہمدرد ہو ۔ جو ولی لڑکی کو نکاح سےروکتا ہے،اپنےاختیارات کو غلط استعمال کرتا ہے وہ اس کا ہمدرد نہیں ہے ،اس لیے وہ اپنے حقِ ولایت سے محروم ہو جاتا ہے ۔ پھر یہ حقِ ولایت آگے دوسرے ولی (دادا،بھائی  یا چچا   )کو منتقل ہو جاتا ہے۔یہ یاد رہے کہ حقِ ولایت  باپ  دادا وغیرہ کی طرف  ہی رہے گا ۔ماں ، نانا ، ماموں وغیرہ کی طرف منتقل نہیں ہوگا ۔

اور اگران میں سے کوئی بھی ولی موجود نہ ہو تو پھر جیسا کہ حدیث میں آیا ہے :

 فَإِنْ اشْتَجَرُوْا فالسُّلطانُ وليُّ من لا وليَّ له (سنن الترمذی:1879)

اگر سب ہی رنجش وچپقلش کا شکار ہوجائیں، تو جس کا کوئی ولی نہ ہو،  حاکمِ وقت اس کا ولی ہوگا۔

لہذا ایسی صورت میں  وقت   کی  حکومت یا عدالت  خود فریق بن کر اس نکاح کے فرائض  سرانجام دیں گے۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے   اس مسئلہ کو بہت متوازن انداز سے بیان کیا ہے، اور اس حوالے سے وارد احادیث پر تین  ابواب  (عناوین) قائم کیے ہیں:

(1)ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔

(2)باپ ،دادا کو چاہیے  کہ اپنی زیرکفالت بچی کا نکاح اس کی رضامندی سے کریں۔

(3)اگرباپ دادا  زبردستی  کریں تو نکاح مردود ہوگا۔

اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دونوں چیزیں ہی ضروری ہیں ۔لڑکی کی رضامندی بھی ضروری ہے اور ولی کی اجاز ت بھی ضروری ہے ،اگر ولی اپنے اختیارات کو غلط استعمال کرتا ہے تو وہ حقِ ولایت سے محروم ہو جائے گااور جو لڑکی اپنےباپ دادا، اور خاندان کی عزت کو داؤ پر لگاتے ہوئے خود نکاح  کرتی ہے ،اس کا نکاح بھی نہیں ہو گا ۔ لہذا لڑکی اپنے ولی کی عزت وآبرو کا خیال رکھے اور اس کی اجازت سےنکاح کرے  اور ولی کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی زیر ِکفالت  بہن یا بیٹی کا نکاح کرتے وقت اللہ سے ڈرے اور اس کی ہمدردی اور خیرخواہی کو مدنظر رکھ کر ہی نکاح کرے ،اس مقدس بندھن کو اپنے مفادات کی بھینٹ نہ چڑھائے۔  واللہ اعلم بالصواب ۔

  • اسی طرح نکاح چھپ کر کرنے کی بجائے، علانیہ، اور گواہوں کی موجودگی میں ہونا ضروری ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

«أَعْلِنُوا النِّكَاحَ» [مسند أحمد:16130، إرواء الغلیل:1993]

’نکاح علانیہ کرو‘۔

ایک اور حدیث میں ہے:

“لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ وَشَاهِدَيْ عَدْلٍ”.[صحيح ابن حبان:4075، إرواء الغليل:1860]

’ولی اور دو عادل گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا‘۔

بلکہ امام بیہقی لکھتے ہیں:

“الْفَرقُ بَيْنَ النِّكَاحِ وَالسِّفَاحِ: الشُّهُودُ”.(معرفة السنن والآثار (10/ 54)

’نکاح اور زنا کا فرق گواہوں سے ہی ہوتا ہے‘۔

لہذا صورتِ مسؤلہ میں کیا گیا، نکاح باطل ہے۔ مرد اور عورت دونوں توبہ کریں،  اولیا اور گواہان  کی موجودگی میں، نئے حق مہر کے ساتھ  دوبارہ نکاح کریں۔

هذا ما عندنا، والله أعلم بالصواب

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف  سندھو  حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ