سوال

میرے دوست کی بیٹی ہے، وہ جوان ہوگئی ہے، اس کے رشتے بھی آتے ہیں، لیکن وہ شادی نہیں کرناچاہتی، کہتی ہے کہ شادی کرنا کوئی ضروری تو نہیں، میری مرضی ہے، کہ میں شادی کروں یا نہ کروں، کوئی مجھے زبردستی مجبور نہیں کرسکتا، اس حوالے سے ہماری رہنمائی فرمائیں، کہ اس بچی کو کیسے قائل کیا جائے ؟

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

  • نکاح کرنا فرض اور ضروری ہے، ارشادِ باری تعالی ہے:

{وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ} [النور: 32]

’تم میں سے جو مرد عورت بےنکاح کے ہوں ان کا نکاح کر دو اور اپنے نیک بخت غلام اور لونڈیوں کا بھی۔ اگر وه مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا۔ اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے‘۔

یہ آیت نص یعنی واضح  حکم  اور دلیل ہے بے نکاح مرد وعورتوں کا نکاح کرنے  پر۔

اس کے  علاوہ حدیثِ مبارک بھی ہے کہ:

(أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ التَّبَتُّلِ.  (سنن الترمذي:1082)

’نبی اکرمﷺ نے بے شادی زندگی گزارنے سے منع فرمایاہے‘۔

یہ حدیث کتنی واضح ہے کہ شریعت میں بغیر نکاح کے رہنے کی اجازت نہیں ہے ۔

ایک اور حدیث ہے:

«رد رسول الله صلى الله عليه وسلم على عثمان بن مظعون التبتل، ولو أذن له لاختصينا».  (صحيح  بخاری:5073،صحیح مسلم : 1402)

’رسول اللہ ﷺ نے عثمان بن مظعون کوبغیرشادی کے زندگی گزارنے کی اجازت نہیں دی، اگرآپ انہیں اس کی اجازت دے دیتے تو ہم خصی ہوجاتے‘۔

یہ  حدیث واضح کرتی ہے کہ بغیر نکاح کے رہنا جائز نہیں ہے۔

  • ایک اور حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“النِّكَاحُ مِنْ سُنَّتِي”.(سنن ابن ماجہ:1846)

’نکاح میرا طریقہ ہے‘۔

یہاں سنت سے مراد سنتِ لازمہ یعنی فرض ہے۔ جیسا کہ رکعاتِ مغرب کے بارے میں آپ نے فرمایا:

“صَلُّوا قَبْلَ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ قَالَ فِي الثَّالِثَةِ لِمَنْ شَاءَ كَرَاهِيَةَ أَنْ يَتَّخِذَهَا النَّاسُ سُنَّةً”. (صحيح البخاري:1183)

’’مغرب سے پہلے دو رکعتیں ادا کرو۔‘‘ تیسری مرتبہ فرمایا: ’’جس کا دل چاہے۔‘‘ یہ اس لیے فرمایا کہ مبادا لوگ اسے  فرض بنا لیں۔

مذکورہ حدیث میں لفظ ’سنت‘ بمعنی فرض استعمال ہوا ہے۔

اسی طرح نکاح کے متعلق آپ کا فرمان:

“فمن لم يعمل بسنتي فليس مني”(سنن ابن ماجہ:1846)

’جس نے میری سنت پر عمل نہ کیا، وہ مجھ سے نہیں‘۔

اور”فمن رغب عن سنتي فليس مني” (سنن دارمی :2215)

’جس نے میری سنت سے اعراض کیا، وہ مجھ سے نہیں‘۔

کے الفاظ فرضیت پہ دال ہیں ،کہ زجر وتوبیخ غیرِ فرض کے ترک پہ نہیں ہوا کرتی۔

  • یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ شادی سے کنارہ کشی، کوئی اچھی خوبی نہیں، اس میں کوئی بہتری ہوتی، تو اللہ تعالی اپنے پسندیدہ بندوں، انبیاء کو اس سے مستثنی قرار دیتا،  حالانکہ انبیاء   تقوی، پرہیزگاری میں سب سے افضل تھے، اللہ تعالی نے ان پاکباز ہستیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلاً مِنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجاً وَذُرِّيَّةً [الرعد:38]

ہم نے آپ سے قبل کئی رسول بھیجے ہیں، اور ہم نے ان کو اہل وعیال عطا کیے تھے۔

اس فطری ضرورت سے اعراض کرنا، فتنہ وفساد اور مشکلات و مصائب کا ذریعہ ہوسکتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

” إِذَا خَطَبَ إِلَيْكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَزَوِّجُوهُ إِلَّا تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ عَرِيضٌ”. [سنن ترمذى:1084]

’’جب تمہیں کوئی ایسا شخص شادی کاپیغام دے، جس کی دین داری اور اخلاق سے تمہیں اطمینان ہوتو اس سے شادی کردو۔ اگر ایسا نہیں کروگے توزمین میں فتنہ اور فساد عظیم برپاہوگا‘‘۔

لہذا جب مناسب رشتہ میسر ہو، پھر بھی شادی سے انکار اور تاخیر یہ فتنہ وفساد کا باعث ہے۔

جب تک عورت کی شادی نہیں ہوتی، اس کے والدین اس کو سنبھالتے، اور اس کی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں، پھر شادی کے بعد اسے خاوند کی صورت میں، بعد میں اولاد کی صورت میں بہترین گھرانہ مل جاتا ہے، ایک وقت آتا ہے کہ جب انسان دوسروں کے پیار محبت، تعلق ومدد کا محتاج ہوجاتا ہے، تو  خاوند کے لیے بیوی اور بیوی کے لیے خاوند  اور ان کی  اولاد و احفاد ان کی دلجوئی کا ذریعہ بن جاتے ہیں، جو لوگ ان سب نعمتوں سے محروم ہوتے ہیں، ان کے لیے زندگی کے مختلف مراحل کافی مشکل ہوجاتے ہیں۔

  • نکاح مرد اور عورت کی فطری ضرورت ، اور ذہنی سکون اور آسودگی کا ذریعہ ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے:

وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجاً لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآياتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ [الروم:21]

’اللہ کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہیں میں سے تمہارے لیے جوڑے بنائے، تاکہ تم سکون حاصل کرسکو، اور تمہارے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے پیار و محبت  بنایا، غور وفکر کرنے والوں کے لیے اس میں کئی ایک نشانیاں ہیں‘۔

جس طرح  کھانا پینا انسان کی بنیادی ضرورت ہے، اسی طرح نکاح بھی اس کی کچھ فطری ضروریات  کی تکمیل کا ایک شرعی ذریعہ ہے،  اگر انسان کا دل کھانے پینے سے اکتا جائے، اسے بھوک پیاس محسوس نہ ہو، تو ہم اسے ایک بیماری سمجھ کر اس کا علاج کرتے ہیں، اسی طرح نکاح سے بے رغبتی والے مسئلے کو بھی سنجیدگی سے لینا چاہیے، اور  غور وفکر کرنا چاہیے کہ اس کی کیا وجوہات اور اسباب ہوسکتے ہیں، اور انہیں حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

  • بیٹی کا والدین کو یہ کہنا کہ شادی کرنا نہ کرنا میرا ذاتی مسئلہ ہے، کوئی مجھے مجبور نہیں کرسکتا، یہ  غلط فہمی اب معاشرے میں عام ہوچکی ہے کہ  بہت سارے لوگ  دینی احکام وعبادات کو ’فرد کا ذاتی مسئلہ‘ کہہ کر ان  سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ واجبات وفرائض کو چھوڑنے اور محرمات کے ارتکاب میں ہمارے پاس یہی دلیل ہوتی ہے کہ یہ ہمارا ذاتی معاملہ ہے۔ حالانکہ اگر بات واقعتا ایسے ہی ہوتی، تو شریعت میں عبادات کی اہمیت وفضیلت اور تاکید ، بلکہ ان  کی فرضیت، اور ان کو چھوڑنے پر وعیدوں  کا ذکر نہ ہوتا، گناہوں پر دنیاوی اور اخروی سخت سے سخت سزاؤں کا اعلان نہ ہوتا۔  اوپر حدیث گزری کہ ایک صحابی نے  شادی کے بغیر زندگی گزارنے کا عزم کیا، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے موقف کو رد کردیا۔پھر فرمایا کہ اگر شادی اور نکاح کااہتمام نہ کیا جائے گا، تو معاشرہ فتنہ وفساد کا شکار ہوجائے گا، یہ سب  چیزیں اس بات کی  طرف رہنمائی کرتی ہیں، کہ نکاح جیسی عظیم سنت اور فریضے کو ذاتی مسئلہ سمجھ کر اس سے اعراض ونفرت کرنا درست نہیں۔ اس میں اس  کا اپنا ، اور جس معاشرے کا وہ حصہ ہے، دونوں کا نقصان ہے۔

لہذا ایسی صورت حال میں اگر کوئی ناسمجھی اور عدم شعور کی بنا پر کسی شرعی حکم سے اعراض کرے، تو اس کو سمجھانے کے ساتھ ساتھ اس پر حسبِ حال سختی بھی کی جاسکتی ہے۔اسلام فرائض پہ عمل کروانے میں سختی کی بھی اجازت  دیتا ہے۔ حدیث میں یہ تو صراحت ہے کہ  لڑکے کے انتخاب میں لڑکی کی پسند نا پسند کا خیال رکھا جائے، اور کسی کے ساتھ نکاح کے لیے اس کی رضامندی ضروری ہے، لیکن اگر وہ سرے سے کسی سے بھی نکاح کرنے پر تیار نہ ہو، تو والدین  کوئی بھی مناسب رشتہ دیکھ کر اس کا نکاح کردیں، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

هذا ما عندنا، والله أعلم بالصواب

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف  سندھو  حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ