سوال

ایک لڑکے کی  اپنی خالہ کی بیٹی کے ساتھ شادی ہوئی ہے،  لیکن اس لڑکے کا چھوٹا بھائی کہتا ہے میری پندرہ سال عمر تھی ،اس وقت میں نے اپنی امی سے سنا تھا کہ میں نے اس لڑکی (جس کے ساتھ بڑے بھائی کی شادی ہوئی ہے) کو اپنا دودھ پلایا ہے۔ اور وہ چھوٹا بھائی اس پر حلف دینے کو بھی تیار ہے، البتہ اسے یہ متعین نہیں کہ دودھ کتنی بار پلایا تھا؟۔ سوال یہ ہے کہ اب یہ نکاح باقی رہے گا یا نہیں؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

  • اگر ماں کے علاوہ کوئی دوسری عورت بچے کو مدتِ رضاعت میں دودھ پلائے تو حرمتِ رضاعت ثابت ہو جاتی ہے۔ یہ دودھ پینے والا بچہ اس عورت کی حقیقی اولاد کی طرح، اس کے اصول وفروع پر حرام ہو جاتا ہے۔ شریعتِ اسلامی میں نسب کی طرح رشتہ رضاعت کا بہت زیادہ خیال رکھا گیا ہے کیونکہ رضاعی رشتوں کو بھی وہی تقدس دیا گیا ہے جو نسبی رشتوں کا ہے۔ جس طرح نسبی رشتوں سے نکاح جائز نہیں اسی طرح رضاعی رشتے بھی نکاح کے لیے حرام ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:

}وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ{[النساء،: 23]

اور تمہاری (وہ) مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری رضاعت میں شریک بہنیں (تم پر حرام ہیں)۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

“يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَةِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ”. [صحيح مسلم :1445]

رضاعت سے بھی وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ جب بچہ کسی دوسری عورت کا دودھ پی لے ،تو وہ عورت اس بچے کی رضاعی ماں بن جاتی ہے، اور وہ بچہ اس عورت کی رضاعی اولاد کی حیثیت رکھتا ہے۔

  • البتہ رضاعت سے حرمت کے ثبوت کے لیے درج ذیل امور ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہیں:
  • دودھ مدتِ رضاعت یعنی دو سال کی عمر کے اندر اندر پیا گیا ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

“إنما الرضاعة من المجاعة” (صحيح البخاری:2647)

’رضاعت  بھوک سے ہے‘ ۔

یعنی  رضاعت اسی عمر میں ثابت ہوتی ہے، جب وہ دودھ براہ راست بچے کی غذا بنتا ہو، او ر اس کی بھوک مٹاتا ہو۔ایک اور روایت میں ہے:

لا رضاع إلا في الحولين (موطا مالك:1290 ، سنن الدارقطني:4/174 )

’رضاعت صرف دو سال کی عمر میں ثابت ہوتی ہے‘۔

  • بچے نے دودھ کم ازکم پانچ دفعہ پیا ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

كان فيما أنزل من القرآن عشر رضعات معلومات يحرمن، ثم نسخن بخمس معلومات، فتوفي النبي – صلى الله عليه وسلم – والأمر على ذلك. ( صحیح مسلم:1452)

’شروع میں دس رضاعتیں حرام کرتی تھیں، پھر پانچ رضاعتوں سے حرمت کا حکم نازل ہوا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو یہی فیصلہ تھا‘۔

ایک اور حدیث میں ہے:

لا تحرم المصة ولا المصتان. ( صحيح مسلم:1451)

’ايك دو دفعہ دوددھ پینے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی‘۔

پانچ دفعہ شمار کرنے کا  طریقہ یہ ہے کہ ایک دفعہ وہ دودھ پینا شروع کرے، اور پھر اپنی مرضی سے دودھ پینا چھوڑ دے، تو یہ ایک مرتبہ شمار ہوگی، پیتے پیتے اگر وہ کھانسی وغیرہ کی وجہ سے پستان منہ سے نکال کر دوبارہ شروع کرے تو پھر بھی وہ ایک  دفعہ ہی شمار ہوگی۔

  • اسی طرح اگر رضاعت كى تعداد ميں شك پيدا ہو جائے كہ پانچ تھيں يا نہيں ؟ تو بھى حرمت ثابت نہيں ہو گى، كيونكہ اصل رضاعت كا نہ ہونا ہے، اس ليے کہ يقيني بات شك سے زائل نہيں ہو سكتى۔ البتہ احتياط  کرتے ہوئے ایسی شادی نہ کی جائے تو بہتر ہے۔نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

“مَنِ اتَّقَى المُشَبَّهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ”.[صحیح بخاری:52]

” جو كوئى بھى مشتبہات سے اجتناب كرتا ہے تو اس نے اپنے دين اور اپنى عزت دونوں كو محفوظ كر ليا ”

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ بھى فرمان ہے:

“دَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ”.[ سنن الترمذي :2518]

’جس ميں تمہيں شك ہو، اسے ترك كر كے، اسے لے لو جس ميں تمہيں شك نہيں‘۔

  • صورت مسؤلہ میں اگر دودھ پلانے والی عورت خود اقرار کرتی ہے کہ میں نے اس لڑکی کو دودھ پلایا تھا، تو پھر رضاعت ثابت ہوجائے گی ۔اگر دودھ پلانے والی عورت فوت ہو گئی ہے، تو پھر دو گواہوں سے رضاعت ثابت ہوگی۔

رہا صرف چھوٹے بھائی کا کہنا ، تو وہ اس وقت کہاں تھا جب بڑے بھائی کی اس لڑکی کے ساتھ منگنی ہو رہی تھی۔نکاح سے پہلے بات چیت ہوتی رہی پھر منگنی ہوئی پھر نکاح ہوا۔اگر اس قسم کی کوئی بات تھی تو اُس وقت بتا دیتا۔ اُس وقت خاموش رہنا،ا ور بعد میں یہ دعوی کرنا،  اس کی کوئی حقیقت نہیں، بلکہ یہ فساد کی صورت محسوس ہورہی ہے۔

  • اگر مندرجہ بالا امور کو سامنے رکھتے ہوئے، ثابت ہوجاتا ہے کہ لڑکی لڑکے کے درمیان رضاعت کا رشتہ تھا، تو پھر یہ نکاح سرے سے قائم ہی نہیں ہوا، کیونکہ قرآن وحدیث کے مطابق رضاعی بہن سے نکاح کرنا حرام ہے۔ لہذا  انہیں فوراً الگ ہو جانا چاہیے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف  سندھو  حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ