سوال

پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد میں حکومتِ وقت ہندوؤں کے لیے ایک نیا مندر تعمیر کر رہی ہے۔ کیا شریعت میں بت کدے تعمیر کرنے کی کوئی گنجائش موجود ہے؟ بالخصوص جب اسے تعمیر کرنے والی بھی اسلامی ریاست ہو؟

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

اللہ سبحانہ وتعالى نے آدم علیہ السلام سے لیکر نبی آخر الزماں ، امام الانبیاء جنابِ محمد رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم تک سبھی انبیاء کو توحید پھیلانے اور شرک مٹانے کے لیے بھیجا ہے، لہذا جہاں بھی اسلامی ریاست قائم ہوئی وہاں بت شکنی کی گئی ہے بت گری نہیں۔ اسی کا نام ملتِ ابراہیمی ہے اور یہی شریعتِ محمدی کا  بھی تقاضا ہے۔ لہذا کسی بھی اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے عبادت خانے بنانا جائز نہیں ہے۔ ہاں مشروط طور پر اہل کتاب کو اپنے کلیسا و کنیسہ بنانے کی رخصت ہے۔ جبکہ مشرکین کی عبادت گاہیں جہاں وہ بت پرستی اور آتش پرستی کرتے ہیں ، انہیں اسلامی قلمرو میں شامل ہونے کے بعد صرف اس صورت میں باقی رکھا جاسکتا ہے جب وہ علاقہ جنگ کے بغیر مسلمانوں کے  ہاتھ آجائے ،اور اس کے رہنے والے مشرکین ،مسلمانوں سے اس شرط پہ صلح کر لیں کہ انکے معبد باقی رکھے جائیں گے۔ البتہ وہاں بھی نئے عبادت خانے بنانے کی اجازت نہیں ہوگی، الا کہ وہ مسلمانوں کی آبادی سے دور الگ تھلگ رہتے ہوں۔لہذا مملکتِ خداد داد پاکستان میں اور بالخصوص اسکے دار الحکومت اسلام آباد میں جسے مسلم حاکم نے آباد کیا تھا، بت کدے اور گرجے تعمیر کرنا شرعا سخت منع ہے۔ اسکی بے شمار دلیلیں کتاب اللہ، سنت ِرسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم، آثار صحابہ وتابعین، اور ائمہ مجتہدین کے اقوال وآثار میں  موجود ہیں۔  بعض دلائل کو بالترتیب ذکر کیا جاتا ہے۔

آیات قرآنیہ

اسلامی ریاست میں مسلم حکمران کا فریضہ ہے کہ وہ نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کرے۔

اللہ تعالى کا فرمان ہے:

{الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ} [الحج: 41]

وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار بخشیں ،تو وہ نماز قائم کریں گے، زکاۃ دیں گے ، اچھائی کا حکم اور برے کاموں سے روکیں گے، اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے قبضے میں ہے۔

گویا برائی کی روک تھام اور ظلم وستم کا خاتمہ حاکمِ وقت کا فریضہ ہے، اور سب سے بڑی برائی  اور سب سے بڑا ظلم اللہ کے ساتھ شرک ہے۔ اللہ تعالى کا فرمان ہے:

{إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ} [سورۃ لقمان: 13]

یقینا شرک بہت بڑا ظلم ہے۔

کفر و شرک کا خاتمہ ہی استحکام ِخلافت، قیامِ امن، اور غلبہ دین کی اساس ہے۔ فرمان باری تعالى ہے:

{وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ} [سورۃ النور: 55]

جو تم میں سے سے ایمان لائے، اور انہوں نے نیک اعمال کیے، اللہ تعالى نے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں زمیں میں ضرور ہی خلافت عطا کرے گا، جس طرح ان لوگوں کو جانشیں بنایا جو ان سے پہلے تھے۔ اور انکے لیے ان کے اس دین کو ضرور ہی اقتدار  دے گا جسے اس (اللہ) نے انکے لیے پسند کیا ہے، اور ہر صورت

انھیں انکے خوف کے بعد بدل کر امن دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے، میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں گے اور جس نے اسکے بعد کفر کیا تو یہی لوگ نافرمان ہیں۔

یعنی وہ لوگ جن کے ساتھ خلافتِ ارضی ، دین کے غلبے، اور خوف کے بعد امن عطا کرنے کا وعدہ ہے، وہ ایسے لوگ ہیں جو ایمان و عملِ صالح سے آراستہ ہوں، صرف اللہ کی عبادت کریں، اور اسکے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں۔ تاکہ  حصولِ اقتدار کے بعد ایمان و عملِ صالح پہ قائم معاشرہ استوار کریں ، توحِید الہی کا ڈنکا بجائیں اور شرک کی بیخ کنی کریں۔ کیونکہ نہی عن المنکر کے فریضہ میں شرک سے منع کرنا سرفہرست ہے۔ یہ ایک مسلمان حاکم کی اولین ذمہ داری ہے۔

ہمارے لیے اللہ تبارک وتعالى نے اسوہ ابراہیمی ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:

{قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ} [سورة الممتحنة: 4]

یقینا تمھارے لیے ابراہیم اور ان لوگوں میں جو اسکے ساتھ تھے ایک اچھا نمونہ تھا، جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا بے شک ہم تم سے اور جن چیزوں کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو، بری اور لا تعلق ہیں۔ہم تمہیں نہیں مانتے اور ہمارے درمیان اور تمھارے درمیان ہمیشہ کے لیے دشمنی اور بغض ظاہر ہوگیا ہے، یہاں تک کہ تم اس اکیلے اللہ پر ایمان لاؤ۔

اللہ سبحانہ وتعالى نے اہل اسلام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

{فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ} [سورۃ الحج: 30]

بتوں کی گندگی سے بچ جاؤ اور جھوٹی بات سے بچو

نیز فرمایا:

{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ} [سورۃ المائدۃ:  90]

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بات یہی ہے کہ شراب ،  جوا، اور شرک کے لیے نصب کردہ چیزیں، اور فال کے تیر، سراسر گندے ہیں، شیطان کے کام ہیں، سو اس سے بچو، تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔

گویا بتوں کو اللہ تعالى نے عملِ شیطان قرار دیا ہے اور ان سے مکمل پرہیز کرنے کا حکم دیا ہے۔  چہ جائیکہ خود بت گری کی جائے اور بت خانے تعمیر و آباد کیے جائیں!

احادیث نبویہ

امام الانبیاء صلى اللہ علیہ وسلم نے ملتِ ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے بت شکنی کو شعار بنایا ، اور ہر قسم کے شرک کی بیخ کنی فرمائی ۔

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَمَّا رَأَى الصُّوَرَ فِي البَيْتِ لَمْ يَدْخُلْ حَتَّى أَمَرَ بِهَا فَمُحِيَتْ. [صحیح البخاری: 3352]

نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ میں بت دیکھے تو اس میں داخل نہیں ہوئے، حتى کہ انکے بارے میں آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمان جاری کیا اور انہیں ختم کر دیا گیا۔

ابو الہیاج اسدی فرماتے ہیں کہ مجھے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

أَلَا أَبْعَثُكَ عَلَى مَا بَعَثَنِي عَلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ «أَنْ لَا تَدَعَ تِمْثَالًا إِلَّا طَمَسْتَهُ وَلَا قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَّا سَوَّيْتَهُ»[صحیح مسلم: 969]

کیا میں تجھے اس  کام کے لیے نہ بھیجوں جس  مہم کےلیے مجھے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: تو جس بھی مورتی کو دیکھے ، اسے ختم کر دے، اور جس بھی اونچی قبر کو دیکھے، اسے برابر کر دے۔

آثار صحابہ

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ:

سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے جو شروط اہل ذمہ کے لیے مقرر کی تھیں جنہیں دنیا ’’شروط عمریہ‘‘ کے نام سے جانتی ہے ،ان میں یہ شرط بھی ہے:

أَنْ لاَ نُحْدِثَ فِى مَدِينَتِنَا وَلاَ فِيمَا حَوْلَهَا دَيْرًا وَلاَ كَنِيسَةً وَلاَ قَلاَّيَةً وَلاَ صَوْمَعَةَ رَاهِبٍ وَلاَ نُجَدِّدَ مَا خَرِبَ مِنْهَا وَلاَ نُحْيِىَ مَا كَانَ مِنْهَا فِى خِطَطِ الْمُسْلِمِينَ. [مسند الفاروق: 2/334 (663)]

ہم اپنے شہر اور اسکے ارد گرد کوئی دیر، کنیسہ،پادری کی رہائش گاہ، یا راہب کا جھونپڑا نہیں بنائیں گے، اور نہ ہی ان میں سے جو خراب ہوگیا اسکی تزیین وآرائش کریں گے، اور نہ ہی ان میں سے جو مسلمانوں کے علاقہ میں ہو اسے آباد کریں گے۔

سیدنا  ابن عباس رضی اللہ عنہ:

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ اسلامی سلطنت میں غیر مسلموں کے لیے نیا (معبد تعمیر ) کرنے کی اجازت ہے؟ تو انہوں نے فرمایا:

أَيُّمَا مِصْرٍ مَصَّرَتْهُ الْعَرَبُ فَلَيْسَ لِلْعَجَمِ أَنْ يَبْنُوا فِيهِ بِيعَةً، وَلا يَضْرِبُوا فِيهِ نَاقُوسًا، وَلا يَشْرَبُوا فِيهِ خَمْرًا، وَلا يَتَّخِذُوا فِيهِ خِنْزِيرًا، وَأَيُّمَا مِصْرٍ مَصَّرَتْهُ الْعَجَمُ، فَفَتَحَهُ اللَّهُ، تَبَارَكَ وَتَعَالَى، عَلَى الْعَرَبِ، فَنَزَلُوا، فَإِنَّ لِلْعَجَمِ مَا فِي عَهْدِهِمْ، وَعَلَى الْعَرَبِ أَنْ يُوفُوا بِعَهْدِهِمْ، وَلا يُكَلِّفُوهُمْ فَوْقَ طَاقَتِهِمْ. [أحكام أهل الملل والردة: ص 346]

ہر وہ شہر کہ جسے مسلمانوں نے آباد کیا ہو، وہاں پہ غیر مسلموں کے  لیے کلیسا بنانا، ناقوس بجانا، شراب پینا، یا خنزیر رکھنا جائز نہیں۔ اور جس شہر کو غیر مسلموں نے آباد کیا ہواور اللہ تبارک وتعالى نے مسلمانوں کو اس پہ فتح دے دی ہو، اور پھر (غیر مسلم ،مسلمانوں سے) وہاں معاہدہ کر لیں ،تو جو معاہدہ انہوں نے کیا ہوگا، اسکے مطابق ان سے معاملہ کیا جائے گا۔ اور مسلمانوں پہ لازم ہے کہ وہ اپنا عہد پورا کریں اور انہیں انکی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دیں۔[1]

آثارِ تابعین

عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ:

امیر المؤمنین عمر بن عبد العزیز  رحمہ اللہ نے  فرمان جاری کیا تھا:

يُمْنَعَ النَّصَارَى بِالشَّامِ أَنْ يَضْرِبُوا نَاقُوسًا قَالَ: وَيُنْهَوْا أَنْ يَفْرِقُوا رُءُوسَهُمْ، وَيَجُزُّوا نَوَاصِيَهُمْ، وَيَشُدُّوا مَنَاطِقَهُمْ، وَلَا يَرْكَبُوا عَلَى سُرْجٍ، وَلَا يَلْبَسُوا عُصَبًا، وَلَا يَرْفَعُوا صُلُبَهُمْ فَوْقَ كَنَائِسِهِمْ. [مصنف عبد الرزاق: 10004]

نصرانیوں کو شام میں ناقوس بجانے سے منع کر دیا جائے۔ انہیں سر کی مانگ نکالنے سے روکا جائے،  یہ اپنے پیشانی کے بال کاٹیں اور اپنی پٹیاں کس کر باندھیں،  زین پر سوار نہ ہوں، اور پگڑیاں نہ باندھیں، اور اپنی صلیبیں گرجوں کے اوپر آویزاں نہ کریں  

طاوس رحمہ اللہ:

امام طاوس بن کیسان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

لَا يَنْبَغِي لَبَيْتِ رَحْمَةٍ أَنْ يَكُونَ عِنْدَ بَيْتِ عَذَابٍ. [الأموال للقاسم بن سلام: 263]

رحمت والے گھر کو عذاب والے گھر کے قریب نہیں ہونا چاہیے۔

امام قاسم بن سَلاَّم اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

أُرَاهُ يَعْنِي الْكَنَائِسَ وَالْبِيعَ وَبُيُوتَ النِّيرَانِ، يَقُولُ: لَا يَنْبَغِي أَنْ تَكُونَ مَعَ الْمَسَاجِدِ فِي أَمْصَارِ الْمُسْلِمِينَ. [الأموال: 124]

اس سے مراد کنیسے گرجے اور آتش کدے ہیں، گویا کہ وہ فرما رہے ہیں کہ مسلمانوں کے شہروں میں مساجد کے ساتھ یہ نہ ہوں۔ (یعنی مسلمانوں کی آبادی سے باہر ہوں)

ابن سیرین رحمہ اللہ:

امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ  کے بارہ میں حبیب بن الشہید کہتے ہیں:

أَنَّهُ كَانَ لَا يَتْرُكُ لِأَهْلِ فَارِسَ صَنَمًا إِلَّا كُسِرَ وَلَا نَارًا إِلَّا أُطْفِئَتْ. [مصنف ابن ابی شیبۃ: 32988]

وہ اہل فارس کا کوئی بت توڑے بغیر نہیں چھوڑتے ہیں اور نہ ہی آتش کدہ کی آگ بجھائے بغیر رہتے تھے۔

حسن بصری رحمہ اللہ:

حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

«قَدْ صُولِحُوا عَلَى أَنْ يُخْلَى بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ النِّيرَانِ وَالْأَوْثَانِ فِي غَيْرِ الْأَمْصَارِ». [مصنف ابن ابی شیبۃ: 32986]

ان سے  اس بات پہ صلح کی گئی کہ آتش کدوں اور بتوں کو شہروں سے باہر کچھ نہیں کہا جائے گا۔

عبد اللہ بن عبید رحمہ اللہ:

عوف بن ابی جمیلہ بیان کرتے ہیں:

«شَهِدْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُبَيْدِ بْنِ مَعْمَرٍ أُتِيَ بِمَجُوسِيٍّ بَنَى بَيْتَ نَارٍ بِالْبَصْرَةِ فَضَرَبَ عُنُقَهُ»[مصنف ابن ابی شیبہ: 32989]

میں عبد اللہ بن عبید بن معمر کے پاس تھا کہ ایک مجوسی لایا گیا جس نے بصرہ میں آتش کدہ بنایا تھا، تو انہوں نے اس (مجوسی) کی گردن اڑا دی۔

فقہائے مذاہب کے اقوال

فقہ حنبلی

امام احمد رحمہ اللہ:

امام اہل السنہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

ليس لليهود والنصارى أن يحدثوا فِي مصر مصره المسلمون بيعة ولا كنيسة ولا يضربوا فِيهِ بناقوس إلا فيما كان لهم صلح. [أحكام أهل الملل والردة: ص 346]

جس شہر کو مسلمانوں نے آباد کیا ہو اس میں یہود ونصاری کے لیے کوئی کلیسا یا کنیسہ بنانا جائز نہیں، اور نہ ہی وہ یہاں ناقوس بجائیں گے، الا کہ جہاں صلح ہوگئی ہو۔

یعنی جو شہر لڑائی کے بغیر مسلمانوں کی ریاست میں شامل ہوا ہواور اہل کتاب سے وہاں معاہدہ ہو، وہاں اہل کتاب اپنی عبادت گاہ بنا سکتے ہیں، لیکن جو شہر آباد ہی مسلمانوں نے کیا ہوجیسا کہ اسلام آباد ہے، اس میں غیر مسلموں کی کوئی عبادت  گاہ تعمیر نہ کی جائے گی۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ:

جو مسلم حاکم نہی عن المنکر  کا فریضہ انجام دینے سے انکار کرے، اسکے بارے میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وَوَلِيُّ الْأَمْرِ إذَا تَرَكَ إنْكَارَ الْمُنْكَرَاتِ وإقامة الحدود عليهما بِمَالٍ يَأْخُذُهُ: كَانَ بِمَنْزِلَةِ مُقَدِّمِ الْحَرَامِيَّةِ، الَّذِي يُقَاسِمُ الْمُحَارِبِينَ عَلَى الْأَخِيذَةِ، وَبِمَنْزِلَةِ الْقَوَّادِ الَّذِي يَأْخُذُ مَا يَأْخُذُهُ؛ لِيَجْمَعَ بَيْنَ اثْنَيْنِ عَلَى فَاحِشَةٍ، وَكَانَ حَالُهُ شَبِيهًا بِحَالِ عَجُوزِ السُّوءِ امْرَأَةِ لُوطٍ، الَّتِي كَانَتْ تَدُلُّ الْفُجَّارَ عَلَى ضَيْفِهِ، الَّتِي قَالَ اللهُ تَعَالَى فِيهَا: ﴿فَاَنْجَيْنٰهُ وَ اَهْلَهٗۤ اِلَّا امْرَاَتَهُ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِيْنَ﴾ [الأعراف: 83] . وَقَالَ تَعَالَى: ﴿فَاَسْرِ بِاَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّيْلِ وَ لَا يَلْتَفِتْ مِنْكُمْ اَحَدٌ اِلَّا امْرَاَتَكَ اِنَّهٗ مُصِيْبُهَا مَاۤ اَصَابَهُمْ﴾ [هود: 81]. فَعَذَّبَ اللهُ عَجُوزَ السُّوءِ الْقَوَّادَةَ بِمِثْلِ مَا عَذَّبَ قَوْمَ السُّوءِ الَّذِينَ كَانُوا يَعْمَلُونَ الْخَبَائِثَ، وَهَذَا لِأَنَّ هَذَا جَمِيعَهُ أَخْذُ مَالٍ لِلْإِعَانَةِ على الإثم والعدوان، وولي الأمر إنما نُصِبَ لِيَأْمُرَ بِالْمَعْرُوفِ، وَيَنْهَى عَنْ الْمُنْكَرِ، وَهَذَا هُوَ مَقْصُودُ الْوِلَايَةِ. فَإِذَا كَانَ الْوَالِي يُمَكِّنُ مِنْ الْمُنْكَرِ بِمَالٍ يَأْخُذُهُ، كَانَ قَدْ أَتَى بضد المقصود، مثل مَنْ نَصَّبْتَهُ لِيُعِينَكَ عَلَى عَدُوِّكَ، فَأَعَانَ عَدُوَّكَ عَلَيْكَ. وَبِمَنْزِلَةِ مَنْ أَخَذَ مَالًا لِيُجَاهِدَ بِهِ فِي سَبِيلِ اللهِ، فَقَاتَلَ بِهِ الْمُسْلِمِينَ.    [السیاسۃ الشرعیۃ: ص 59,60]

’’جو ولی الامر (حاکم) منکرات وجرائم کو نہیں روکے گا اور حدود کا اجرا نہیں کرے گا ، بلکہ مال لے کر چھوڑ دے گا، وہ کرائے کے قاتلوں کی طرح ہے، جو مال لے کر لڑائی کرتے ہیں، اور اس دَلّال کی مانند ہے، جو دو لوگوں کو فحاشی وعریانی کا سامان مہیا کرتا ہے۔ اس کا حال وہی ہوگا جو لوط    علیہ السلام کی بے حیا بیوی کا ہوا جو فاسق وفاجر لوگوں کو لوط علیہ السلام    کے مہمانوں کی خبر دیتی تھی، سو اس کے بارے میں  اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’پس ہم نے لوط کو اور ان کے گھر والوں کو عذاب سے نجات دی، مگر اس کی بیوی  کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں تھی۔‘‘ اور دوسرے مقام پر فرمایا: ’’تو تم اپنے اہل وعیال کو لے کر راتوں رات نکل چلو اور تم میں سے کوئی مڑ کر بھی نہ دیکھےسوائے تمہاری بیوی کے جو عذاب اوروں پر نازل ہوگا ،وہ اس کو بھی پہنچے گا۔‘‘ دیکھئے اللّٰہ تعالیٰ نے اس بدترین بڑھیا کو جو دلالی کرتی تھی، اسی عذاب میں مبتلا کیا جو اس بدترین قوم اور خبیث وجرائم پیشہ لوگوں کو دیا۔ اور یہ اس لئے کہ تمام کا تمام مال لینا  دراصل اثم وعدوان کی اعانت وامداد ہے۔ اور حاکم اس لئے بنایا جاتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے۔ یہی حکومت اور مناصب کا

اصل اسلامی مقصد ہے۔اگر حاکم مال لے کر اور رشوت وصول کرکے کسی منکر کو پھلنے پھولنے دے گا، تو گویا وہ اصل مقصد ِحکومت کے خلاف اور اس کی ضد پر قائم ہوگیا۔ اور یہ ایسا ہی ہے کہ تم نے کسی کو دشمن کے خلاف لڑنے کو بھیجا اور وہ تمہارے ہی خلاف تمہارے دشمن کی اعانت وامداد شروع کردے۔ اور یہ بمنزلہ اس مال کے ہے کہ تم نے کسی جہاد میں خرچ کرنے کے لئے  مال دیا اور وہ اسے مسلمانوں کے قتل  کرنے میں  ہی خرچ کررہا ہے۔ ‘‘

امام   رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:

وولي الأمر إنما نصب ليأمر بالمعروف وينهى عن المنكر وهذا هو مقصود الولاية. [السیاسۃ الشرعیۃ:ص 60]

اور ولی امر (حاکم وقت) مقرر ہی اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ وہ نیکی کا حکم اور برائی سے منع کرے، یہی حکومت کا مقصد ہے۔

مزید رقمطراز  ہیں:

إن صلاح العباد بالأمر بالمعروف والنهي عن المنكر فإن صلاح المعاش والعباد في طاعة الله ورسوله ولا يتم ذلك إلا بالأمر بالمعروف والنهي عن المنكر وبه صارت هذه الأمة خير أمة أخرجت للناس قال الله تعالى: {كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ} [آل عمران: 110] وقال تعالى: {وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ} [آل عمران: 104] وقال تعالى عن بني إسرائيل: {كَانُوا لا يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُنْكَرٍ فَعَلُوهُ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ} [المائدة:79] وقال تعالى: {فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ أَنْجَيْنَا الَّذِينَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوءِ وَأَخَذْنَا الَّذِينَ ظَلَمُوا بِعَذَابٍ بَئِيسٍ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ} [الأعراف: 145] فأخبر الله تعالى

أن العذاب لما نزل نجى الذين ينهون عن السوء وأخذ الظالمين بالعذاب الشديد. [السیاسۃ الشرعیۃ: ص 60]

بندوں کی بہتری امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں ہے۔ کیونکہ بندوں اور معیشت کی بہتری اللہ اور اسکے رسول صلى اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں اور یہ (اطاعت والا کام) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بغیر نہیں ہوسکتا۔اسی ( امر بالمعروف اور نہی عن المنکر) کی وجہ سے یہ امت سب سے بہتر امت قرار پائی ، اللہ تعالى کا فرمان ہے:’’تم سب سے بہتر امت چلے آئے ہو، جو لوگوں کے لیے نکالی گئی، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو‘‘۔ اور اللہ تعالى نے بنی اسرائیل کے بارے میں فرمایا: ’’ وہ ایک دوسرے کو کسی برائی سے، جو انھوں نے کی ہوتی، روکتے نہ تھے، جو وہ کیا کرتے تھے بے شک برا ہے۔اور اللہ تعالى نے فرمایا: ’’پھر جب وہ اس بات کو بھول گئے جس کی انہیں نصیحت کی گئی تھی تو ہم نے ان لوگوں کو بچا لیا جو برائی سے منع کرتے تھے، اور جنھوں نے ظلم کیا انکو سخت عذاب میں پکڑ لیا، اس وجہ سے کہ وہ نافرمانی کرتے تھے‘‘۔ تو اللہ تعالى نے خبردار کیا ہے کہ جب عذاب نازل ہوتا ہے تو وہ لوگ بچتے ہیں جو برائی سے منع کریں اور ظالموں کو شدید عذاب کا شکار کر دیا جاتا ہے۔

نہی عن المنکر میں سے اہم ترین کام شرک سے روکنا ہے۔ اہل کفر وشرک کے شعائر کو مسلمانوں کے علاقوں میں نہ پھیلنے دینا اور انکے آگے بند باندھنا مسلم حاکم کی ذمہ داری ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

والمدينة التي يسكنها المسلمون، والقرية التي يسكنها المسلمون، وفيها مساجد المسلمين، لا يجوز أن يظهر فيها شيء من شعائر الكفر: لا كنائس ولا غيرها. [مسألۃ فی الکنائس:  ص104]

اور وہ شہر جس میں مسلمان رہتے ہوں ، اور وہ بستی جس میں مسلمان رہتے ہوں، اور وہاں مسلمانوں کی مساجد ہوں تو وہاں کفر کے شعائر میں سے کچھ بھی ظاہر کرنا جائز نہیں خواہ ہو گرجے ہوں یا کچھ اور( یعنی گردوارے یا مندر وغیرہ)

فقہ شافعی

امام شافعی رحمہ اللہ:

امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کوئی مسلم حاکم کسی غیر مسلم قوم سے جزیہ پہ صلح کرے تو معاہدہ میں لکھے:

لَيْسَ لَكُمْ أَنْ تُظْهِرُوا فِي شَيْءٍ مِنْ أَمْصَارِ الْمُسْلِمِينَ الصَّلِيبَ، وَلَا تُعْلِنُوا بِالشِّرْكِ، وَلَا تَبْنُوا كَنِيسَةً، وَلَا مَوْضِعَ مُجْتَمَعٍ لِصَلَاتِكُمْ، وَلَا تَضْرِبُوا بِنَاقُوسٍ، وَلَا تُظْهِرُوا قَوْلَكُمْ بِالشِّرْكِ فِي عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، وَلَا فِي غَيْرِهِ لِأَحَدٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ. [الأم للشافعی: 4/209]

تمہارے لیے مسلمانوں کے کسی بھی شہر میں صلیب کی نمائش کرنا روا نہ ہوگا، اور نہ ہی تم اعلانیہ شرک کرو گے، اور نہ کنیسہ بناؤگے، اور نہ ہی اپنی نماز کے لیے کوئی جگہ (نئی) مقرر کرو گے، اور نہ ہی ناقوس بجاؤ گے، اور نہ ہی عیسى بن مریم علیہما السلام یا کسی اور کے بارے میں اپنی شرکیہ بات کسی بھی مسلمان کے سامنے کرو گے۔

مزید فرماتے ہیں:

أَنْ لَا يُسْمِعُوا الْمُسْلِمِينَ شِرْكَهُمْ وَقَوْلَهُمْ فِي عُزَيْرٍ وَعِيسَى – عَلَيْهِمَا السَّلَامُ – ……. وأَنْ لَا يُحْدِثُوا فِي مِصْرٍ مِنْ أَمْصَارِ الْمُسْلِمِينَ كَنِيسَةً وَلَا مُجْتَمَعًا لِضَلَالَاتِهِمْ وَلَا صَوْتَ نَاقُوسٍ. [الأم للشافعی: 4/218]

(مسلمان حاکم یہ طے کرے کہ) وہ عزیر اور عیسى علیہما السلام کے بارے میں مسلمانوں کو اپنا شرک نہیں سنائیں گے۔ ……مسلمانوں کے کسی بھی شہر میں کنیسہ یا اپنی گمراہیوں کی اجتماع گاہ نہیں بنائیں گے اور نہ ہی ناقوس بجائیں گے۔

امام ابو الحسن ماوردی رحمہ اللہ:

خلافت عباسیہ میں چیف جسٹس امام ماوردی ’حاکم کے فرائض‘ میں لکھتے ہیں:

حِفْظُ الدِّينِ عَلَى أُصُولِهِ الْمُسْتَقِرَّةِ، وَمَا أَجْمَعَ عَلَيْهِ سَلَفُ الْأُمَّةِ، فَإِنْ نَجَمَ مُبْتَدِعٌ أَوْ زَاغَ ذُو شُبْهَةٍ عَنْهُ، أَوْضَحَ لَهُ الْحُجَّةَ، وَبَيَّنَ لَهُ الصَّوَابَ، وَأَخَذَهُ بِمَا يَلْزَمُهُ مِنَ الْحُقُوقِ وَالْحُدُودِ؛ لِيَكُونَ الدِّينُ مَحْرُوسًا مِنْ خَلَلٍ، وَالْأُمَّةُ مَمْنُوعَةً مِنْ زَلَلٍ. [الأحكام السلطانية: ص 40]

’’مسلمان حاکم کا فریضہ ہے کہ دین کو ان مضبوط بنیادوں پر قائم رکھے جیسا کہ محمد ﷺ نے ان کو چھوڑا تھا اور اسلاف امت نے ان پر اتفاق کیا ہے۔ اگر کوئی بدعتی  یا فتنہ پرور نمودار ہوجائے تو اس پر حق کو واضح کرتے ہوئے دلیل کو قائم کرے۔ اور حقوق وحدود میں کوتاہی پر اس کی گرفت کرے۔  تاکہ دین ہر قسم کے خلل سے محفوظ اور امت ہر گمراہی سے مامون رہے۔ ‘‘

امام سُبکی رحمہ اللہ:

امام تقی الدین ابو الحسن علی بن عبد الکافی السبکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

لَا يَجُوزُ إحْدَاثُ كَنِيسَةٍ فِيهَا وَكَذَلِكَ لَا يَجُوزُ إبْقَاؤُهَا فِيهَا عَلَى الصَّحِيحِ. [فتاوى السبکی: 2/394]

(مفتوحہ علاقوں میں) نیا کنیسہ بنانا جائز نہیں اور صحیح قول کے مطابق پہلے سے موجود گرجوں کو باقی رکھنا بھی جائز نہیں ہے۔

فقہ مالکی

امام مالک رحمہ اللہ:

امام دار الہجرۃ ، مالک بن انس رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

لَا يُعْجِبُنِي أَنْ يَبِيعَ الرَّجُلُ دَارَه مِمَّنْ يَتَّخِذُهَا كَنِيسَةً وَلَا يُؤَاجِرُ دَارَه مِمَّنْ يَتَّخِذُهَا كَنِيسَةً. [المدونۃ: 3/435]

مجھے یہ پسند نہیں کہ آدمی اپنا گھر کسی ا یسے شخص کو بیچے جو اسے کنیسہ بنا ڈالے، اور نہ ہی کنیسہ بنانے والے کو اپنا گھر کرایہ پہ دے۔

امام مالک رحمہ اللہ سے سوال ہوا:

هَلْ لِأَهْلِ الذِّمَّةِ أَنْ يَتَّخِذُوا الْكَنَائِسَ فِي بِلَادِ الْإِسْلَامِ؟

کہ ذمیوں کے لیے اسلامی سلطنت میں کنیسے بنانے کی اجازت ہے؟

تو انہوں نے فرمایا:

لَا إلَّا أَنْ يَكُونَ لَهُمْ شَيْءٌ أَعْطَوْهُ. [المدونۃ: 3/435]

نہیں ، الا کہ کوئی معاہدہ ہو تو اسے پورا کیا جائے گا۔

طرطوشی رحمہ اللہ:

امام ابو بکر محمد بن محمد الطرطوشی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وأما الكنائس فإن عمر بن الخطاب رضي الله عنه أمر بهدم كل كنيسة لم تكن قبل الإسلام، ومنع أن تحدث كنيسة وأمر أن لا يظهر علية خارجة من كنيسة ولا يظهر صليب خارج من كنيسة إلا كسر على رأس صاحبه، وكان عروة بن محمد يهدمها بصنعاء، وهذا مذهب علماء المسلمين أجمعين، وشدد في ذلك عمر بن عبد العزيز رضي الله عنه فأمر أن لا يترك في دار الإسلام بيعة ولا كنيسة بحال قديمة ولا حديثة، وهكذا قال الحسن البصري قال: من السنة أن تهدم الكنائس التي في الأمصار القديمة والحديثة. [سراج الملوک: ص 138]

رہے کنیسے تو عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ہر اس کنیسہ کو گرانے کا حکم دیا تھا جو اسلام سے قبل نہیں تھا۔ اور نیا کنیسا بنانے سے منع فرما دیا تھا۔ اور حکم دیا تھا کہ کنیسے سے باہر کوئی بالاخانہ نہ بنایا جائے  اور کنیسہ سے باہر صلیب کی نمائش نہ کریں، اگر ایسا کیا تو اسے نمائش کرنے والے کے سر پہ مار کر توڑ دیا جائے گا۔ اور عروۃ

بن محمد صنعاء میں انہیں گرا دیتے تھے، اور یہ تمام تر مسلمان علماء کا مذہب ہے۔ بلکہ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے اس بارے میں سختی کی اور حکم  جاری فرمایا کہ اسلامی سلطنت میں کوئی کلیسا یا کنیسہ نیا ہو یا پرانا کسی بھی صورت نہ چھوڑا جائے، اور اسی طرح حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ نئے اور پرانے شہروں میں موجود کنیسے گرادینا سنت ہے۔

ابن الماجشون رحمہ اللہ:

علامہ ابن  الماجشون رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

ولا تحدث كنيسة في بلد الإسلام. وأما إن كانوا أهل ذمة منقطعين عن بلد الإسلام ليس بينهم مسلمون، فذلك لهم، ولهم إدخال الخمر وكسب الخنازير. وأما بين المسلمين فيمنعون من رم كنائسهم القديمة إذا رثت، إلا أن يكون ذلك شرطاً فى عهدهم فيوفى لهم، ويمنعون من الزيادة الظاهرة والباطنة. …. وهذا فى أهل الصلح. فإما فى أهل العنوة فلا يترك لهم عند ضرب الجزية عليهم كنيسة إلا هدمت، ثم لا يحدثوا كنيسة وان كانوا معتزلين عن بلد الإسلام. [النَّوادر والزِّيادات على مَا في المدَوَّنة من غيرها من الأُمهاتِ: 3/376]

اسلامی مملکت میں کوئی نیا کنیسہ نہیں بنایا جائے گا۔ ہاں اگر ذمی لوگ اسلامی شہروں سے دور رہتے ہوں جہاں مسلمان موجود نہ ہوں تو انکے لیے یہ جائز ہے، اور شراب اور خنزیر  رکھنے کی بھی انہیں اجازت ہوگی۔ اور اگر وہ مسلمانوں کے درمیان رہتے ہوں تو انہیں پرانے گرجوں کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد انکی اصلاح کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی، الا کہ انکے ساتھ معاہدے میں یہ طے پا جائے، تو ان سے وعدہ وفا کیا جائے گا۔ اور انہیں ان (گرجوں) میں ظاہری اور باطنی ہر لحاظ سے اضافہ کرنے سے منع کیا جائے گا …… اور یہ اہلِ صلح کے احکام ہیں۔ جبکہ جن سے لڑائی کے بعد فتح حاصل کی گئی تو ان پہ جزیہ عائد کرتے ہوئے انکا کوئی

کنیسہ نہیں چھوڑا جائے، اور نہ مزید نیا کنیسہ تعمیر کرنے کی اجازت ہوگی، خواہ وہ مسلمانوں کے شہروں سے الگ ہی رہتے ہوں۔

فقہ حنفی

امام محمد رحمہ اللہ:

امام محمد بن حسن الشیبانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

لا ينبغي أن يتركوا أن يحدثوا بِيعة ولا كنيسة إلا ما كان من كنيسة أو بيعة قديمة فصاروا ذمة وهي بيعة لهم أو كنيسة وهي في غير مصر من أمصار المسلمين؛ ولا أن يتركوا أن يسكنوا في مصر من أمصار المسلمين؛ لأن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – أجلاهم من المدينة. وجاء عن علي – رضي الله عنه – أيضاً أنه أجلاهم من الكوفة. …… ولا ينبغي أن يتركوا أن يبنوا بِيعة ولا كنيسة ولا بيت نار في مصر من أمصار المسلمين ولا في غير مصر من دار المسلمين. وإن كان لهم كنيسة أو بِيعة أو بيت نار فصولحوا عليه فكان ذلك في غير مصر ترك ذلك لهم. وإن انهدم ذلك تركوا أن يعيدوه. وإن اتخذ المسلمون في ذلك الموضع مصراً أخذوا وهدمت بيعهم وكنائسهم من ذلك الموضع، وتركوا أن يبنوا مثلها في غير المصر. وبهذا القول نأخذ. [الأصل المعروف بالمبسوط: 7/549,550]

اہل کتاب کو مسلمانوں کے شہروں میں سے کسی شہر یا کسی بھی آبادی میں کلیسا، یا کنیسہ  بنانے کی اجازت دینا جائز نہیں ہے۔الا کہ اگر انکا کوئی کلیسا ، یا کنیسہ پہلے سے موجود ہو، پھر وہ ذمی بن جائیں، اور وہ  مسلمانوں کے شہر میں نہ ہو۔ اور انہیں مسلم آبادی والے شہر میں رہائش پذیر نہیں رہنے دیا جائے گا کیونکہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے انہیں مدینہ سے نکال دیا تھا۔ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ آئے تو انہوں نے انھیں کوفہ سے بھی نکال دیا تھا۔  …….  اور یہ جائز نہیں ہے کہ انہیں مسلمانوں کے شہروں  میں سے کسی شہر میں کلیسا یا کنیسہ

یا آتش کدہ بنانے کے لیے کھلا چھوڑ دیا جائے۔ اور اگر انکا کوئی کلیسا یا کنیسہ یا آتش کدہ پہلے سے موجود ہو، پھر اس پر صلح ہو جائے اور وہ شہر میں نہ ہو، تو اسے انکے لیے چھوڑ دیا جائے گا۔ اور اگر وہ منہدم ہو جائے تو انہیں تعمیر نو کی اجازت ہوگی۔اور اگر مسلمان اس جگہ شہر آباد کر لیں  تو اس جگہ سے انکے کلیسے اور کنیسے گرا دیے جائیں گے، اور انہیں کسی اور جگہ شہر سے باہر اسی طرح کا (کلیسا یا کنیسہ ) بنانے کی اجازت ہوگی۔ اور اسی پہ ہمارا فتوى ہے۔

ابن عابدین رحمہ اللہ:

علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:

لَا يَجُوزُ إحْدَاثُ كَنِيسَةٍ فِي الْقُرَى وَمَنْ أَفْتَى بِالْجَوَازِ فَهُوَ مُخْطِئٌ وَيُحْجَرُ عَلَيْهِ. [رد المحتار على الدر المختار المعروف فتاوى شامی: 4/202]

بستیوں میں نیا کنیسہ بنانا جائز نہیں ہے، اور جو اسکے جواز کا فتوى دے اس پہ (فتوى دینے پر) پابندی لگا دی جائے گی۔

علامہ نسفی رحمہ اللہ:

علامہ أبو البركات نسفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

لا تحدث بيعةٌ ولا كنيسةٌ في دارنا. [کنز الدقائق:  ص 385]

اور ہمارے (مسلمانوں کے) علاقے میں کوئی نیا کلیسا یا کنیسہ تعمیر نہیں کیا جائے گا۔

آئین پاکستان

پاکستان ایک ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ ہے۔ وزیر اعظم پاکستان نواب زادہ لیاقت علی خان نے جو قرارداد پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے 12 مارچ 1949ء کو منظور کیا، جسے قرارداد مقاصد کے نام سے جانا جاتا ہے، پھر 2 مارچ

1985ء کو صدر پاکستان محمد ضیاء الحق کے صدارتی فرمان کے ذریعہ آئین میں آٹھویں ترمیم کے تحت اسے آئین پاکستان میں شامل کر لیا گیا، اسکا پہلا نکتہ ہی یہ ہے:

’’اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکتِ غیر ے حاکمِ مطلق ہے۔ اُس نے جمہور کے ذریعے مملکت پاکستان کو جو اِختیار سونپا ہے، وہ اُس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔‘‘

جس کا ماحصل یہ ہے کہ کوئی بھی پاکستانی حکومت، عدلیہ، مقننہ یا انتظامیہ اللہ تعالى کی مقرر کردہ حدود سے سرِمو انحراف نہیں کرسکتی۔ اگر ایسا کیا تو یہ آئین سے غداری متصور ہوگی۔

1954ء کے پاکستان کے اولین مسودہ دستور جسے 1956ء میں حتمی شکل  دی گئی،کے تیسرے باب کے آرٹیکل 4 میں کہا گیا تھا کہ قرآن وسنت کے منافی کوئی قانون سازی نہ کی جائے ، اور اس سے متصل آرٹیکل5 میں یہ وضاحت کی گئی کہ قرآن وسنت کی وضاحت کے لیے متعلقہ فرقے کی مسلمہ وضاحت قابل قبول ہوگی۔ اور اسی کے ذریعہ ہی ملکی دستوری تاریخ میں پہلی مرتبہ مملکت کا نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ قرار پایا۔اور 1973ء کے دستور میں اسے باقی رکھا گیا۔ اور آئین پاکستان مجریہ 1973ء کی دفعہ نمبر 2  کے مطابق پاکستان کا ریاستی مذہب اسلام قرار دیا گیا ہے۔ اس آرٹیکل کا بالصراحت مطلب یہ ہے کہ ریاستی امور اسلام کے مطابق چلائے جائیں گے۔ اس سے مراد محض انفرادی امور میں اسلام کے عمل دخل کا اقرار لیا جائے تو ریاستی سطح پر اس اقرار کی ضرورت سرے سے پیدا نہیں ہوتی۔ اس لیے اسکا ایک ہی مطلب ہے کہ قانون سازی کرتے وقت اسلامی اصولوں کو پیش نظر رکھا جائے گا۔  اس کے آرٹیکل 19 میں شہریوں کا تقریر اور اظہار کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ پریس آزاد ہوگا ۔ لیکن اس بنیادی حق کو اسلام کی عظمت کی خاطر عائدکردہ معقول قانونی بندشوں کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے۔

تو جب پاکستان ایک اسلامی ملک ہے جس میں حاکم اعلى اللہ تعالى کو تسلیم کیا گیا ہے اور سپریم لاء کتاب وسنت کو قرار دیا گیا ہے تو ایسے ملک میں نہی عن المنکر کے بالکل الٹ منکرات کے مواقع فراہم کرنا ، بلکہ منکرات

میں سے سب سے بڑے منکر یعنی شرک باللہ کے لیے راہیں ہموار کرنا اور بت کدے تعمیر کرنا شریعت اسلامیہ کی تعلیمات اور آئین پاکستان کی صریح خلاف ورزی ہے۔

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ  (رئیس اللجنۃ)

فضیلۃ الشیخ  ابو الحسن مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ   (نائب رئیس)

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

([1] ) نوٹ: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول میں موجود لفظ ’’عرب‘‘ کو ’مسلمان‘ اور ’’عجم‘‘ کو ’غیر مسلم‘ سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ اس دور میں جزیرہ نمائے عرب حلقہ بگوش اسلام ہو چکا تھا اور عجم میں کفر وشرک باقی تھا، گویا عرب سے اہل اسلام مراد لیے جاتے تھے۔ جیسا کہ برصغیر میں مغلوں کے دور میں ’’مغل‘‘ مسلمان ہونے کا استعارہ تھا، اور ہر مسلمان کو ’مغل‘ کہا جاتا تھا۔