سوال

شوہر نے ایک طلاق لکھی ،لیکن ارسال نہیں کی۔ ایک ماہ بعد وہ ایک اور لکھ كر ارسال کردے، تو کیا، یہ پہلی شمار ہوگی يادوسری؟

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

« إِنَّمَا الطَّلاَقُ لِمَنْ أَخَذَ بِالسَّاقِ» [سنن ابن ماجة:2081، وحسنه الألباني في الإرواء:2041]

طلاق دینا اس کا اختیار ہے جو پنڈلی کو پکڑتا ہے۔

پنڈلی پکڑنا ایک محاورہ ہے، جو بے تکلفی کے لئے بولا جاتا ہے۔یعنی جو میاں اور بیوی کے درمیان بےتکلفی ہوتی ہے۔ اس کو(اخذ بالساق) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ طلاق دینا، خاوند کا اختیار ہے۔

لہذا خاوند  جب اپنے اختیار کو استعمال کرلیتا ہے، تو طلاق واقع ہوجاتی ہے۔  بھلا وہ لکھ کر، دستخط کرکے، اپنے پاس رکھ لے، یا پھر ڈاک کے سپرد کردے، لیکن ڈاک نہ پہنچے، یا پھر ڈاک پہنچ جائے، لیکن دوسری طرف والے اسے وصول نہ کریں، یا وصول کرکے پھاڑ دیں وغیرہ، تو ان سب صورتوں میں  چونکہ خاوند کی طرف سے طلاق  دی جا چکی ہے، لہذا یہ نافذ ہوگی۔

صورتِ مسؤلہ میں بھی ایک طلاق تو تبھی ہوگئی تھی، جب اس نے لکھ کر اوپردستخط کر کے اپنے پاس رکھ لی۔اب اس نے ایک مہینے کے بعد پھر طلاق لکھی ہے، تو یہ دوسری شمار ہوگی۔

بذریعہ ڈاک، اس نے ایک بھیجی ہے، یا دونوں اکٹھی۔اکٹھے بھیجنے سے مراد یہ نہیں  لیا جائے گا، کہ اس نے ایک ہی مجلس میں دو طلاقیں دے دی ہیں۔بلکہ دوسری طلاق کے درمیان ایک مہینے کا وقفہ آ چکا ہے تو گویا کہ یہ دوسری طلاق ہوئی۔اب اگرچہ وہ دونوں کو اکٹھا روانہ کرے تو پھر بھی طلاقیں دو ہی ہونگی۔

اب حکم یہ ہے کہ اگر عدت کے اندر اندر رجوع کرلیتا ہے تو نکاح برقرار ہے۔اگر عدت گزرنے کے بعد پھر خیال آتا ہے تو تجدید نکاح کے ساتھ اپنے گھر کو آباد کر سکتا ہے۔ دو طلاقیں ہوگئی ہیں، اب  صرف ایک اختیار اس کے پاس باقی ہے۔ اگر وہ بھی اس نے استعمال کر لیا تو پھر کسی صورت میں بھی  رجوع نہیں ہوسکے گا۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الرؤف بن  عبد الحنان حفظہ اللہ