سوال

گھر والوں کی آپس میں لڑائی کے سبب مجھے مجبور کیا گیا کہ میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دوں، گھر والوں نے  بیک وقت تین طلاقوں کا خود ہی اشٹام تیار کروایا، اور پھر مجھ سے زبردستی  دستخط کروا لیے، اور میں  نے بھی ان کے ڈر سے دستخط کردیے ۔ میرا سوال یہ ہے کہ  کیا کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین بار طلاق طلاق کہہ دے تو کیا ایسی صورت میں طلاق واقع ہو جاتی ہے ،قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب

الحمدلله والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، أما بعد!

  • طلاق دینا نہ دینا یہ خاوند کا حق ہے، کسی کو طلاق پر مجبور کرنا، یہ انتہائی مکروہ فعل ہے، اگر میاں بیوی آپس میں زندگی گزار رہے ہیں، تو کسی کے کہنے پر طلاق جیسا انتہائی اقدام کرنا درست نہیں ہے،  طلاق پر مجبور کرنے والوں کو سمجھانا چاہیے کہ یہ  رویہ درست نہیں، اور اگر واقعتا انتہائی مجبوری بن جائے، اور اکراہِ حقیقی کی صورت ہو، تو پھر اہل علم کے نزدیک ایسی طلاق واقع ہی نہیں ہوتی، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

لا طلاق في إغلاق. (سنن ابي داود:2193، وحسنه الألباني في الإرواء:2047)

مجبوری میں کوئی طلاق نہیں۔

صورتِ مسئولہ میں یہ واضح نہیں ہوسکا کہ سائل واقعتا مجبور تھا، یا پھر اپنی ایک غلطی کو مجبوری کا نام دیا جارہا ہے، بہرصورت اگر تو واقعتا مجبوری اور اکراہِ حقیقی کی صورت ہو، تو طلاق واقع  ہوئی ہی نہیں، لیکن اگر کسی نہ کسی حد تک اس کی رضامندی شامل تھی، تو پھر یہ طلاق واقع ہوچکی ہے، البتہ یہ تین نہیں، بلکہ ایک طلاق ہوگی۔

  • کتاب وسنت کی رو سے ایک مجلس میں دی ہوئی بیک وقت تین طلاقیں دینے سے ایک رجعی طلاق ہوتی ہے بشرطیکہ طلاق دینے کا پہلا یا دوسرا موقع ہو ۔دلائل حسب ذیل ہیں:

1۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے عہد نبوت ،سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ   کے زمانہ خلافت اور سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو سالہ دور حکومت میں  تین طلاقیں ، ایک طلاق کا حکم رکھتی تھیں ،لیکن کثرتِ طلاق کی وجہ سے سیدنا عمررضی اللہ   عنہ نے کہا کہ لوگوں نے اس معاملہ میں جلدی کی جس میں ان کے لیے نرمی اور آسانی تھی ،اگر میں اسے نافذ کردوں تو بہتر ہے ۔اس کے بعد انہوں نے اسے نافذ کر دیا (صحیح مسلم، الطلاق،1472) تاہم  سیدنا عمررضی اللہ  کا یہ اقدام تعزیری وانتظامی نوعیت کا تھا  ،  جیسا کہ اس بات کو کئی ایک حنفی اکابرین  نے بھی  تسلیم کیا ہے۔(ملاحظہ ہو: جامع الرموز کتاب الطلاق اور حاشیہ طحطاوی  على الدر المختار)

2۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں سیدنا رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں  تین طلاقیں دے دیں ۔لیکن اس کے بعد بہت افسردہ ہوئے ،رسول اللہ ﷺ نے  ان سے پوچھا کہ تم نے  اسے طلاق کس طرح دی تھی ؟عرض کیا:تین مرتبہ۔ آپﷺ نے دوبارہ پوچھا:  ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی تھیں ؟عرض کیا! ہاں۔  آپ ﷺ نے فرمایا: پھر یہ ایک ہی طلاق ہوئی ہے اگر تم چاہو تو رجوع کر سکتے ہو۔، راوی حدیث سیدنا ابن عباس رضی اللہ   عنہ کے بیان کے مطابق انہوں نے رجو ع کر کے  اپنا گھر آباد کر لیا تھا۔( مسند احمد:ص 123/4 ، ت: احمد شاکر  )

اس حدیث کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

هذا الحدیث نص فی المسئلة لایقبل التاؤیل. (فتح الباری : 362/ 9)

یہ حدیث مسئلہ طلاق ثلاثہ  کے متعلق ایک فیصلہ کن دلیل  کی حیثیت رکھتی ہے جس کی  کوئی تاؤیل نہیں کی جاسکتی ۔

  • بعض علمائے احناف نے بھی دلائل کے پیش نظر ان احادیث کے مطابق فتوی دیا ہے۔ ان علما میں مولانا پیر کرم شاہ ،مولانا عبدالحلیم قاسمی، مولانا حسین علی واں بھچراں ،مولانا احمد الرحمٰن اسلام آباد اور پروفیسر محمد اکرم ورک سرِفہرست ہیں ۔ ان کے فتاویٰ کی تفصیل( ایک مجلس میں تین طلاق ) نامی کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے۔ بہرحال ان حقائق کی روشنی میں ایک باغیرت مسلمان کے لیے گنجائش ہے کہ اگر اس نے ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی ہیں تو دورانِ عدت بلاتجدیدِ نکاح رجوع کر سکتا ہے ،اور اگر عدت گزر چکی ہے تو بھی تجدید ِنکاح سے اپنا گھر آباد کرسکتا ہے ۔قرآن و حدیث کا یہی فیصلہ ہے اس کے علاوہ ہمارے ہاں رائج الوقت عائلی قوانین اور دیگر اسلامی ممالک میں بھی یہی فتوی دیا جاتاہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ  (رئیس اللجنۃ)

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر حافظ اسحاق زاہد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ