سوال

ایک میت ہے اس کے ماں باپ ہیں ۔اور ایک بھائی  ہے ،حقیقی اور باقی اس کے بہن بھائی باپ کی طرف  سے  ہیں، حقیقی نہیں ہیں ۔کس کس کو حصہ ملے گا اور کتنا ملے گا جواب درکار ہے۔

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

قرآن حکیم میں ہے۔

( یُوۡصِیۡکُمُ اللّٰہُ فِیۡۤ  اَوۡلَادِکُمۡ ٭ لِلذَّکَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ ۚ فَاِنۡ کُنَّ نِسَآءً فَوۡقَ اثۡنَتَیۡنِ فَلَہُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ ۚ وَ اِنۡ کَانَتۡ وَاحِدَۃً  فَلَہَا النِّصۡفُ ؕ وَ لِاَبَوَیۡہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنۡہُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنۡ کَانَ لَہٗ  وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ  یَکُنۡ لَّہٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَہٗۤ اَبَوٰہُ فَلِاُمِّہِ الثُّلُثُ ۚ فَاِنۡ کَانَ لَہٗۤ  اِخۡوَۃٌ فَلِاُمِّہِ السُّدُسُ مِنۡۢ بَعۡدِ وَصِیَّۃٍ یُّوۡصِیۡ بِہَاۤ اَوۡ دَیۡنٍ ؕ اٰبَآؤُکُمۡ وَ اَبۡنَآؤُکُمۡ لَا تَدۡرُوۡنَ اَیُّہُمۡ اَقۡرَبُ  لَکُمۡ نَفۡعًا ؕ فَرِیۡضَۃً مِّنَ  اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا:سورة النساء۱۱)

اللہ تعالٰی تمہیں تمہاری  اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصّہ دو لڑکیوں کے برابر ہے  اور اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں اور دو سے زیادہ ہوں تو انہیں مال متروکہ کا دو تہائی ملے گا  اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کے لئے آدھا ہے اور میّت کے ماں باپ میں سے ہر ایک کے لئے اس کے چھوڑے ہوئے مال کا چھٹا حصّہ ہے  ، اگر اس  ( میّت  ) کی اولاد ہو   ، اگر اولاد نہ ہو اور ماں باپ وارث ہوتے ہوں تو اس کی ماں کے لئے تیسرا حصّہ ہے   ، ہاں اگر میّت کے کئی بھائی ہوں تو پھر اس کی ماں کا چھٹا حصّہ ہے   ۔ یہ حصّے اس  وصیّت  ( کی تکمیل )  کے بعد ہیں جو مرنے والا کر گیا ہو یا ادائے قرض کے بعد  ، تمہارے باپ ہوں یا تمہارے بیٹے تمہیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کون تمہیں نفع پہنچانے میں زیادہ قریب ہے   ، یہ حصّے اللہ تعالٰی کی طرف سے مُقّرر کردہ ہیں. بیشک اللہ تعالٰی پورے علم اور کامل حکمتوں والا ہے ۔

اس سے پتہ چلا اگر میت کی اولاد نہ ہو تو والدین وارث ہوتے ہیں۔ماں باپ جب وارث ہوں گے تو اس کی دو صورتیں ہیں۔ایک صورت یہ ہے کہ اس کے متعدد بہن بھائی نہیں ہیں۔ماں کو تیسرا حصہ ملے گا اور باقی دو حصے باپ کو ملیں گے۔اگر اس کے متعدد بہن بھائی ہیں۔پھر ماں کو چھٹا حصہ ملے گا۔بہن بھائیوں کو تو کچھ نہیں ملے گا۔ البتہ بہن بھائیوں کی موجودگی میں ماں کا چھٹا حصہ ہو جائے گا۔اور باقی پانچ حصے باپ کے ہیں ۔حقیقی بھائی بھی محروم ہے۔ اور جو بہن بھائی باپ کی طرف سے ہیں وہ بھی محروم ہیں۔ان کو اس میت کی جائیداد سے کچھ بھی نہیں ملے گا۔اور یہ اتنا کریں گے کہ ماں کے حصے کو کچھ کم کر دیں گے۔باپ کا حصہ زیادہ ہو جائے گا۔اگر یہ نہ ہوتے تو ماں کو تیسرا حصہ ملتا۔اس صورت مسؤلہ میں۔اس کی اولاد تو نہیں ہے۔بہن بھائیوں کی موجودگی میں ماں کو چھٹا حصہ۔اور باقی پانچ حصے باپ کے ہیں۔بہن بھائیوں کو کچھ نہیں ملے گا یہ محروم ہیں۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الرؤف بن  عبد الحنان حفظہ اللہ