سوال

ایک مقدمہ میں ملزمان گرفتار ہوئے ہیں جن سے درج ذیل کتب برآمد ہوئی ہیں:1۔تفسیر مرزا غلام احمد قادیانی ،2۔تفسیر صغیر از مرزا بشیرالدین محمود خلیفہ ثانی ،3۔ترجمہ مرزا طاہر احمد خلیفہ رابع ،4۔ مولوی شیر علی۔اس بابت آپ کی رائے مطلوب ہے کہ یہ ترجمہ قرآن میں تحریف کی گئی ہےاور اگر کی گئی تو یہ کس نوعیت کی ہے؟

1۔ کیا ترجمہ قرآن میں تحریف کرناتحریف قرآن کے زمرے میں آتا ہے کہ نہیں۔؟

2۔ تحریف قرآن کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکامات ہیں؟

3۔تحریف قرآن کرنے والے ملزمان کے متعلق  شریعت سے کیا حکم ملتا ہے؟

4۔تحریف شدہ ترجمہ قرآن پاک کوپرنٹ کرنے والے ،تقسیم کرنے والوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟رہنمائی فرمائیں۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

  • تحریف دو طرح کی ہوتی ہے:  ایک لفظ میں تبدیلی کردینا۔ دوسرا: لفظ کو اسی حالت میں رہنے دینا، لیکن اس کے معنی میں ہیر پھیر کردینا۔

خلیل  بن احمد الفراہیدی لکھتے  ہیں:

 والتحريف في القرآن تغيير الكلمة عن معناها. [العين:4/210]

’قرآنِ کریم میں تحریف کا مطلب یہ ہے کہ  کلمات کے معانی تبدیل کردینا‘۔

شریعت میں تحریف   جیسی خصلتِ بد اور جرمِ عظیم میں یہودی بہ کثرت مبتلا تھے،  جیسا کہ قرآنِ کریم میں اس کا بالخصوص ذکر ہے ۔ارشادِ باری تعالی ہے:

{وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ} [البقرة: 75]

’ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں، جو کلام اللہ کو سن کر،سمجھ کر، علم رکھنے کے باوجود بدل ڈالتے ہیں‘۔

مزید فرمایا:

{مِنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ } [النساء: 46]

’بعض یہود کلمات کو ان کی ٹھیک جگہ سے ہیر پھیر کر دیتے ہیں‘۔

ایک اور آیت میں ہے:

{يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ} [المائدة: 13]

’وه کلام کو اس کی جگہ سے بدل ڈالتے ہیں ‘۔

اسی طرح فرمایا:

{يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَوَاضِعِهِ يَقُولُونَ إِنْ أُوتِيتُمْ هَذَا فَخُذُوهُ وَإِنْ لَمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوا} [المائدة: 41]

’وه کلمات کے اصلی موقعہ کو چھوڑ کر انہیں متغیر کردیا کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ اگر تم یہی حکم دیئے جاؤ تو قبول کرلینا اور اگر یہ حکم نہ دیئے جاؤ تو الگ تھلگ رہنا‘۔

  • کسی عام شخص کے بیان میں تبدیلی کرنا، بہت بڑا جرم ہے، جبکہ اللہ کے کلام میں تبدیلی و تحریف تو کبائر میں سے ہے۔ اور ایسے لوگوں کے متعلق اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ:

{لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ} [المائدة: 41]

’ ان کے لئے دنیا میں بھی بڑی ذلت اور رسوائی ہے اور آخرت میں بھی ان کے لئے بڑی سخت سزا ہے ‘۔

ایک اور جگہ پر اللہ تعالی فرماتے ہیں:

{لَعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا} [النساء: 46]

’اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کی وجہ سے انہیں لعنت کی ہے۔ پس یہ بہت ہی کم ایمان لاتے ہیں ‘۔

  • مذکورہ حوالہ جات سے یہ بات واضح ہوئی کہ لفظ کو بدلنا تو تحریف ہے ہی، اس کے معنی  اور ترجمہ میں تبدیلی بھی تحریف ہی کہلاتی ہے، اور ایسا شخص دنیا و آخرت میں رسوائی اور عذاب کا مستحق ہے، اور ایسے شخص کے دل سے حلاوتِ ایمان ختم ہو کر، اس کی جگہ کفر لےلیتا ہے۔

تحریف شدہ تراجم ِ قرآنِ کریم کو پرنٹ کرنے والے، اور ان کی نشر واشاعت کرنے والے بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔

  • سوال میں مذکورہ لوگ قادیانیت سے تعلق رکھتے ہیں، یہ لوگ تمام امت کے نزدیک کافر ہیں، ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ آئینِ پاکستان کے مطابق بھی یہ گروہ دائرہ اسلام سے خارج ہے، اور انہیں اپنے مذہب کی نشر واشاعت، اور عبادات کے اظہار کی قطعی طور پر اجازت نہیں ہے۔ اور ان کے مذکورہ تراجم وتفاسیرِ بھی کفر اور  تحریف سے خالی نہیں ہیں، کچھ مثالیں درج ذیل ہیں:
  1. {وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ } [البقرة: 4]

مرزا بشیر الدین  اس آیت میں تحریف کرتے ہوئے آخرت کی جگہ پر مرزا غلام قادیانی کی وحی پر ایمان لانا ضروری قرار دیا ہے۔ (تفسیر صغیر سورۃ بقرہ آیتِ مذکورہ)

جبکہ مرزا نے آخرت سے مراد مسیح موعود کی وحی  لی ہے۔(تفسیر مرزا ص445 جلد اول)

  1. {وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا} [النساء: 69]

قادیانی عقیدے کے مطابق کوئی بھی انسان اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری کرکے نبوت جیسا عہدہ بھی حاصل کرسکتا ہے۔ اس عقیدے کو بالا آیت کےترجمہ میں تحریف کرکے ثابت کیا گیا ہے۔ جس سے آپﷺ کی امتیازی شان ومرتبہ، ختم نبوت کی نفی کی گئی ہے۔ مرزا بشیر الدین  کے الفاظ یہ ہیں:

’’اور جو لوگ بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرینگے وہ ان لوگوں میں شامل ہونگے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاءاورصدیقین،اورشہداءاور صالحین (میں)اور یہ لوگ (بہت ہی) اچھے رفیق ہیں‘‘۔(تفسیر صغیر120)

اورمرزا طاہر احمد اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت میں نبی بھی آسکتا ہے۔

  1. {سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ} [الإسراء:1]

اس آیت کی تفسیر میں مرزا غلام قادیانی ،مرزا بشیرالدین،مولوی شیر علی،مرزا طاہر نے اسْرٰى  معراج جسمانی کا انکارکرکے تحریف کی ہے۔

  1. {مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ} [الأحزاب: 40]

اس آیت کی تفسیر میں مرزا بشیرالدین  آیت کے اصل حکم کو مسخ کرتے ہوئے نبوت کے جاری ہونے کو بیان کرتا ہےاس تحریف شدہ تفسیر سے اس آیت کے نزول کے مقصد کو مسخ کیا جاتا ہے۔ اس کے الفاظ ہیں:

’یعنی آپ کی تصدیق کے بغیر اور آپ کی تعلیم کی شہادت کے بغیر کوئی شخص نبوت یا ولایت کے مقام تک نہیں پہنچ سکتا۔ لوگوں نے نبیوں کی مہر کی جگہ آخری نبی کے معنے لئے ہیں۔ مگر اس سے بھی ہماری پوزیشن میں فرق نہیں آتا‘۔

  1. {وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ} [آل عمران: 144]

مولوی شیر علی کے ترجمہ میں اس آیت کے معنی میں تحریف کرتے ہوئے لکھا گیا ہے:

And Muhammad is only a Messenger Verily,all Messengers have passed away before him.

گویا اس سے اس نے  وفات مسیح ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، تاکہ مرزا کو مسیح بنا سکے۔

  • قرآنِ کریم کے ساتھ یوں کھلواڑ کرنے والوں کو روکنا اربابِ اقتدار کی ذمہ داری ہے، مشہور قاضی ابو یعلی الفراء رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

“وإن وجد فيمن يتصدى لعلم الشرع من ليس مِنْ أَهْلِهِ، مِنْ فَقِيهٍ أَوْ وَاعِظٍ، وَلَمْ يأمن اغترار النَّاسِ بِهِ فِي سُوءِ تَأْوِيلٍ، أَوْ تَحْرِيفِ جواب، أنكر عليه التصدي لما ليس مِنْ أَهْلِهِ، وَأَظْهَرَ أَمْرَهُ، لِئَلَّا يُغْتَرَّ بِهِ… وكذلك لَوْ ابْتَدَعَ بَعْضُ الْمُنْتَسِبِينَ إلَى الْعِلْمِ قَوْلًا خَرَقَ بِهِ الْإِجْمَاعَ وَخَالَفَ فِيهِ النَّصَّ وَرَدَّ قَوْلَهُ عُلَمَاءُ عَصْرِهِ أَنْكَرَهُ عَلَيْهِ وَزَجَرَهُ عَنْهُ، فَإِنْ أَقْلَعَ وَتَابَ وَإِلَّا فَالسُّلْطَانُ بِتَهْذِيبِ الدِّينِ أحق. وإذا انفرد بَعْضُ الْمُفَسِّرِينَ لِكِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى بِتَأْوِيلٍ عَدَلَ فِيهِ عَنْ ظَاهِرِ التَّنْزِيلِ إلَى بَاطِنِ بِدْعَةٍ، متكلف لَهُ غَمْضَ مَعَانِيهِ…كَانَ عَلَى الْمُحْتَسِبِ إنْكَارُ ذَلِكَ”. [الأحكام السلطانية له، ص: 293]

’اگر شرعی علم میں نااہل فقیہ، واعظ وغیرہ کود پڑیں، اور  ان کی تاویلات و تحریفات کی وجہ سے لوگوں کی گمراہی کا امکان ہو، تو ایسے شخص کی نقاب کشائی کرنا، اور اسے روکنا ضروری ہے، تاکہ لوگ دھوکے سے محفوظ رہیں۔ اسی طرح اگر کسی نے خلاف اجماع رائے بیان کی، اور صریح نصوص کی تردید کی، اور علمائے کرام نے اس کی  تردید ومذمت کردی، تو حاکم وقت کو ایسے شخص کو روکنا اور ڈانٹ ڈپٹ کرنا ضروری ہے، اگر وہ باز آجائے، تو ٹھیک، ورنہ حاکم کو اختیار ہے کہ وہ دین کی حمایت کے لیے مناسب اقدام کرے۔ اسی طرح اگر کسی نے قرآن کی تفسیر کرتے ہوئے، واضح معانی کو چھوڑ کر دور از کار تاویل وتحریف کی، تو  اربابِ احتساب کی طرف سے اس کو روکنا ضروری ہے‘۔

بلکہ اگر  غیر مسلموں کو بھی اسلامی ملک میں رہنے کی اجازت دینی ہے، تو ان کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوئے  انہیں یہ شرط منوانا ضروری ہے کہ وہ  کتاب اللہ پر کسی قسم کا طعن یا اس میں تحریف نہیں کریں گے، اور اہل اسلام کو ان کے دین سے بھٹکانے سے گریز کریں گے۔[الأحكام السلطانية للماوردي، ص: 225]

  • اگر ہم تاریخ کا جائزہ لیں  تو خلفائے راشدین اور مسلمان حکمرانوں نے  تمام دنیا میں قرآن پاک کو لفظی اور معنوی تحریف سے  ہر دور میں محفوظ رکھنے  میں اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے  ادا  کرتے ہوئے اسلام دشمن قوتوں ، نبوت کے جھوٹے  دعوے داروں اور دیگر فتنوں  کی سرکوبی کی۔  کیونکہ ،چاہے یہ نبوت کا جھوٹادعوے دار مسیلمہ کذاب ہو یا دیگر کوئی اور، ان تمام فتنوں نے  قرآن پاک   کی معنوی تحریف کے ذریعے ہی اپنے باطل نظریات  کو  سہارا دینے کی سعی لا حاصل کی ہے۔ بطور مثال چند ایک کا ذکر درج ذیل ہے:
  • مسلیمہ کذاب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں ہی نبوت کا دعوی کردیا تھا، اور {بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ } وغیرہ آیات میں آنے والی اللہ تعالی کی صفت’رحمان‘ میں معنوی تحریف کرتے ہوئے، دعوی کیا کہ اس سے مراد میں ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا قلع قمع کرنے کے لیے لشکر روانہ فرمایا، پھر بعد میں خلافت صدیقی میں ایک بڑی جنگ کے بعد اس فتنے کا خاتمہ ہوا۔
  • مغیرہ بن سعید عجلی نامی ایک مدعی نبوت تھا، اس نے {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى } [الأعلى: 1]جیسی کچھ آیات کی معنوی تحریف کی، تو اس وقت کے گورنر خالد بن عبد اللہ قسری نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو قتل کردیا۔  (تاریخ طبری:7/128، تاریخ ابن کثیر:9/323)
  • اسی طرح ایک اور بدبخت بیان بن سمعان تمیمی تھا، اس نے قرآن کریم کی بعض وہ آیات جن میں اللہ تعالی کی الوہیت کا ذکر ہے، ان میں تحریف معنوی کرتے ہوئے کہا کہ اس سے مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ اسے بھی اس جرم کی پاداش میں قتل کیا گیا۔ ( تاریخ  الاسلام للذہبی:3/214، الفرق بین الفرق:228)

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف  سندھو  حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ