سوال

سائل آپ سے گزارش کرتا ہے کہ سائل نے اپنے ایک عزیز کو 2011 میں اپنی جیب سے ویزا خرید کر دیا، جس پر کل لاگت 22000 ریال  ہوئی۔ وہ آرمی کا ریٹائرڈ تھا، کافی تگ و دو کرنے کے بعد اس کو اچھی کمپنی میں جاب دلوا دی۔ 2011 سے لے کر 2016 تک اس نے صرف 6000 ریال اقساط کی صورت میں واپس کیے. جبکہ وہ اچھی انکم لے رہا تھا. آخر ایک دن میں نے اس پر دباؤ ڈالا کہ اب تم صاحبِ استطاعت ہو میری رقم مبلغ 16000 ریال مجھے یکمشت یا اقساط کی صورت میں واپس کرو. لیکن اس نے میرے سامنے نہایت گریہ زاری کرتے ہوئے کہا کہ باقی رقم میں ادا نہیں کر سکتا مجھے معاف کر دو. میں نے اس کی ظاہری شکل اور حالت زار کو دیکھ کر کہ دیا کہ چلو ٹھیک ہے تم کو معاف کیے۔لیکن کچھ ماہ بعد اس نے 30لاکھ پاکستانی روپے کا مکان خریدا اور اپنی فیملی کو بھی وزٹ پر بلایا. اور اس نے مزید ایک سال بعد اسی مکان کے اوپر دو پورشن مزید بنائے. مجھے پتا چلا کہ اس نے مجھے بیوقوف بنایا اور جھوٹ پر مبنی مکارانہ ادا کاری کرتے ہوئے مجھ سے مطلوبہ رقم معاف کرا لی. جب مجھے اس کی اس مکارانہ ادا کاری کا پتا چلا تو میں اس کے پاس گیا اور گزارش کی کہ تم نے میرے ساتھ یہ ایک ڈرامہ کیا تھا جو کہ ایک جھوٹ پر مبنی تھا لہذا آپ سے گزارش ہے کہ آپ ہر لحاظ سے صاحب استطاعت ہیں اور کسی صورت میں بھی قرض معاف کرانے کے حق دار نہیں ہیں. میں اللہ سبحانہ تعالیٰ سے معافی مانگتا ہوں اور اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں اور تو بھی مجھے معاف کر اور میرا پیسہ مجھے واپس دے. لیکن وہ اب اسی بات پر بضد ہے کہ تونے معاف کر دیا تھا لہذا معاف کی ہوئی چیز یا پیسہ کا واپسی مانگنا مترادف اپنی گندگی کھانے کے ہے۔

آپ سے استدعا ہے کہ شریعت اس بارےمیں کیا حکم دیتی ہے. برائے مہربانی میری رہنمائی کریں بذریعہ فتویٰ، کیا میں اس سے اپنی رقم واپس لینے کا مطالبہ کر سکتا ہوں؟ جبکہ وہ الحمدللہ اُس وقت بھی اور آج بھی صاحب استطاعت ہے. لیکن اس وقت سائل اس کے حالات سے اچھی طرح واقف نا تھا. ورنہ میں کبھی بھی اس کے مکارانہ فریب میں نا آتا. جزاکم اللہ خیرا. والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سائل: محمد بلال شریف (سعودی عرب)

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة، والسلام على من لا نبي بعده!

  • آپ ایک محسن اور بھلے انسان معلوم ہوتے ہیں کہ پہلے تو آپ نے ایک عزیز کو نوکری تلاش کرکے دی، اس کے اخراجات خود برداشت کیے، پھر اس کی حالتِ زار کو دیکھتے ہوئے، اس کا قرض بھی معاف کردیا، یقینا یہ بہت بڑی نیکی ہے، قرآن کریم کی آیت ہے:

 {فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ } [الشورى: 40]

’’جو معاف کردے، اور اصلاح سے کام لے، تو وہ اللہ کے ہاں اجر کا مستحق ہے۔‘‘

نیت خالص ہو، تو ان نیکیوں کا روز قیامت بہت بڑا بدلہ ملنے والا ہے۔ ان شاءاللہ۔

  • آپ نے اپنے عزیز کے ساتھ جس طرح نیکی کی ہے، اس سے محسوس ہوتا ہے کہ آپ کا آپس میں اچھا تعلق تھا، آپ اسی تعلق کو سامنے رکھتے ہوئے، حسنِ ظن سے کام لیں، اور یہ سمجھیں کہ آپ کے عزیز نے جو فیملی ویزہ لیا، یاگھر وغیرہ بنایا ہے، ہوسکتا ہے، اس کے اخراجات کسی اور نے برداشت کیے ہوں، خود اس کی حالت واقعتا ایسی ہی ہو، جیسی اس نے آپ کو بیان کی ہے۔ بالفرض اگر آپ کی بات درست ہے، اور آپ کے عزیز نے واقعتا غلط بیانی کی ہے، تو  یہ شرعا اور اخلاقا ہر دور اعتبار سے درست نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

«مَطْلُ الغَنِيِّ ظُلْمٌ » [صحيح البخاري :۲۲۸۷]

’’صاحبِ حیثیت آدمی کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔‘‘

جھوٹ، دھوکا دہی کبھی بھی معاملات میں برکت کا ذریعہ نہیں بن سکتا، اس سے گھر بار، کاروبار، مال اولاد میں جلد یا بہ دیر نقصان ہی نقصان ہوتا ہے۔ اور آخرت میں تو بہر صورت ایک ایک پائی کا حساب دینا پڑے گا۔

  • آپ کا یہ کہنا کہ آپ کے اس عزیز نے آپ کے ساتھ دھوکا اور فراڈ کیا ہے، لہذا آپ جو قرض معاف کرچکے ہیں، اسے واپس لینا چاہتے ہیں، تو ہمارے مطابق اس قرض کی معافی سے رجوع کی کوئی صورت  نہیں  ہے، الا یہ کہ آپ معاف کرتے وقت یہ گنجائش رکھتے کہ اگر آپ واقعتا مجبور ہیں، تو میں معاف کرتا ہوں، یا پھر جب تک آپ کے پاس رقم کا بندوبست نہیں ہوتا،تب تک میں آپ کو ڈھیل دیتا ہوں، تو پھر آپ قرض کا مطالبہ کرسکتے تھے، اب جبکہ آپ مطلق طور پر معافی کا بیان دے چکے ہیں، تو پھر اس سے رجوع کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
  • آپ کے پاس قرض معاف کرنے کی گنجائش تھی، آپ نے اللہ کی رضا کے لیے یہ نیکی کرلی، اب اگر آپ کے عزیز نے دھوکا و فراڈ بھی کیا ہے، تو آپ اس کی غلطی کے سبب اپنی نیکی خراب نہ کریں، بلکہ یہ سمجھیں کہ اس کا کئی گنا اجر آپ کو اللہ کی طرف سے ملنے والا ہے۔

{إِنَّهُ مَنْ يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ} [يوسف: 90]

بیشک جو اللہ سے ڈرتا، اور صبر کرتا ہے، تو یقینا اللہ تعالی احسان کرنے والوں کا اجر ضائع کرنے نہیں کرتا۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ  (رئیس اللجنۃ)

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور حافظ محمد اسحاق زاہد حفظہ اللہ