سوال

ایک بھائی کسی کمپنی میں جاب کرتے تھے ، کینسر کی وجہ سے اچانک فوت ہوگئے۔ اب اس کے ماں باپ کو بیمہ کی رقم ملی ہے ۔ ماں باپ کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے۔ تو کیا وہ اس رقم کو استعمال کر سکتے ہیں ؟

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

  • بیمہ شدہ آدمی جو فوت ہوا ہے، اس کو بیمہ سے جو رقم ملنی ہے، وہ تین قسم کی ہوسکتی ہے:
  • اس کی اصل رقم  جو  اس نے بیمہ کمپنی والوں کو ادا کی ہوگی۔ تو جو رقم اس نے ادا کی ہے،اس کے والدین کے لیے اتنی  رقم لینا جائز ہے ۔
  • بیمہ کمپنی کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ وہ مختلف لوگوں سے بیمہ کی رقم جمع کرکے ، اسے آگے  بھاری شرح سود پر بطور قرض دے دیتے ہیں، لہذا بیمہ کروانے والا جب فوت ہوتا ہے، یا اس کا کوئی نقصان ہوتا ہے، تو اسی سود سےحاصل کردہ رقم سے اس کے ساتھ مدد کی جاتی ہے۔ یہ چونکہ واضح سود ہے، اس لیے یہ اضافی رقم لیناقطعا درست نہیں۔
  • ایک صورت یہ بتائی جاتی ہے کہ  بیمہ کمپنی لوگوں سے پیسے لے کر ، اس رقم کو کاروبار پر لگاتے ہیں، اور  حاصل ہونے والے نفع (پرافٹ)  كو بیمہ کروانے والوں پر، انکی رقم کے تناسب سے تقسیم کردیتے ہیں۔ یہ  بھی بہر حال مشکوک ہے ہمیں کوئی پتہ نہیں وہ کس قسم کے کاروبار میں لگاتے ہیں، بلکہ لگاتے بھی ہیں یا صرف فرضی  طور پر لوگوں کو باور کروا دیتے ہیں!
  • لہذا  ہمارا موقف یہ ہے کہ  بیمہ اور انشورنس وغیرہ قطعا نہیں کروانی چاہیے، اور اگر کسی نے کروالی ہے تو وہ یا اس کے لواحقین صرف اصل رقم واپس لے سکتے ہیں، اضافی رقم لینا درست نہیں۔ انشورنس/ بیمہ کی حرمت اور قباحتوں پر تفصیل کے لیے فتوی نمبر [54] ملاحظہ کیجیے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الرؤف بن  عبد الحنان حفظہ اللہ