سوال

ایک مسلمان،کافر کے لیے وصیت کرے، تو کیا اس وصیت کو نافذ کیا جائے گا؟ بالخصوص جب ظنِ غالب ہو کہ کافر  اس  مال  اور  جائیداد کو حرام  وناجائز کاموں میں ہی صرف کرے گا؟

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

جب ظن غالب ہی یہ ہے،  کہ کافر اس مال اور جائیداد کو گناہ ،حرام اور ناجائز کاموں میں استعمال کرے گا،  تو پھر ایسی وصیت جائز ودرست نہیں ہے۔  کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

“وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ.”[سورۃ المائدہ :2]

’ گناه اورظلم و زیادتی میں مدد گار نہ بنو،۔

اور قیامت کے روز اللہ تعالیٰ نے پوچھنا بھی ہے،کہ  مال کہاں خرچ کیا ؟

لہذا ایسے شخص کو وصیت کرنا درست نہیں، جو آپ کے مال و جائیداد کو حرام کاموں میں صرف کرے خواہ  وہ مسلمان ہو یا غیرمسلم ۔

امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

“وَلَا تَحِلُّ وَصِيَّةٌ فِي مَعْصِيَةٍ ، لَا مِنْ مُسْلِمٍ وَلَا مِنْ كَافِرٍ، كَمَنْ أَوْصَى بِبُنْيَانِ كَنِيسَةٍ أَوْ نَحْوِ ذَلِكَ …فمَنْ تَرَكَهُمْ يُنَفِّذُونَ خِلَافَ حُكْمِ الْإِسْلَامِ وَهُوَ قَادِرٌ عَلَى مَنْعِهِمْ فَقَدْ أَعَانَهُمْ عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ” [المحلى:8/37]

’کافر ہو، یا مسلمان،  نافرمانی اور ناجائز کام کی وصیت جائز نہیں، اور جس نے ایسی کسی خلافِ اسلام وصیت کو نافذ ہونے دیا، حالانکہ وہ اس کو منع کرنے پر قدرت رکھتا تھا، تو یہ شخص بھی اس گناہ کے کام میں ، شریک و مدد گار تصور کیا جائے گا‘۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’نافرمانی اور حرام کام کی وصیت جائز  نہیں، اور اگر کسی نے کردی، تو باطل ہوگی‘۔ [المغني:6/122]

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الرؤف بن  عبد الحنان حفظہ اللہ