سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام میں آمنہ بنت عزیز ہمارے گھر میں ناچاقی کی وجہ سے کچھ مسائل ہیں، جن کا میں فتوی لینا چاہتی ہوں۔ یہ مسائل ہم میاں بیوی کے درمیان ہیں ،ان کا کوئی گواہ نہیں ہے۔ تقریبا چھ سال پہلے میرے شوہر نے کہا تھا کہ اگر گھر سے باہر نکلی توطلاق ہوجائے گی! اور میں گھرسےنکل کرابو کےگھرچلی گئی تھی۔ (پھر گھر والوں نےصلح کروادی تھی)

کچھ عرصہ بعدپھرلڑائی ہوئی تومیرےشوہرنےمیرا ہاتھ پکڑکراپنےمنہ پرمارااور بولے:یہ ایک طلاق ہو گئی۔ پھرکچھ دیربعدآئےاور دوسراپکڑکراپنےمنہ کی دوسری  طرف مارااوربولے :دوسری ہوگئی(دوسری بولے طلاق کا نام نہیں لیا) ۔ ہمارے تین بچے ہیں، ان بچوں کی پریشانی کی وجہ سے دونوں کےخاندان والےصلح کرواناچاہتےہیں ۔

(1)صلح جائز ہے یا نہیں؟

(2) اگر جائز ہے، تو صلح کی صورت کیا ہو گی؟

(3)صرف رجوع ہوگا یا دوبارہ نکاح ہو گا؟

(4) اگر دوبارہ نکاح ہو گا تو کیا پہلے والی طلاقیں برقرار رہیں گی یا ختم ہو جائیں گیں؟

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

  • اس سوال میں کئی چیزیں قابل وضاحت ہیں:

(1) طلاقِ معلق              (2) ایک ہی وقت میں ایک سے زائد طلاقیں             (3) رجوع کا طریقہ

(4) رجوع کے بعد پہلی والی طلاق شمار ہوگی کہ نہیں۔

سب سے پہلی جو اس نے طلاق دی ہے، اسے طلاقِ معلق کہا جاتا ہے، یعنی طلاق کو کسی چیز کے ساتھ معلق کردینا کہ اگر ایسے ہوگیا تو  طلاق۔۔۔ وغیرہ ۔ یہاں بھی یہی صورت تھی  کہ خاوند کہا تھا کہ اگر تم گھر سے باہر گئی تو تجھے طلاق۔اور بیوی گھر سے نکل کر والدین کے گھر چلی گئی ، لہذا ایک طلاق واقع ہوگئی۔

(2) دوسری مرتبہ منہ پر ہاتھ مارکر جو اس نے دو مرتبہ طلاق دی ہے،  تو یہ  ایک ہی مجلس میں دو طلاقیں ہیں، جو ہمارے نزدیک قرآن وسنت کی رو سے ایک ہی ہوئی ہے۔ (اس  کی  تفصیل ہم کئی ایک فتاوی میں بیان کرچکے ہیں۔)

ایک پہلی طلاقِ معلق، اور ایک یہ والی، یہ دو طلاقیں ہوگئی ہیں۔

(3) طلاق سے رجوع کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ عدت کے اندر اندر تعلقات بحال کرلیے جائیں،  اور اگر عدت کے اندر اندر رجوع نہیں کیا گیا، تو پھر از سرِ نو نکاح کرنا ضروری ہوتا ہے۔   اگر عورت حاملہ ہو، تو اس کی عدت وضعِ حمل (بچے کی ولادت) ہوتی ہے، اور اگر غیر حاملہ ہو، تو اس کی عدت تین حیض ہوتی ہے۔  صورتِ مسؤلہ میں  ہمیں معلوم نہیں کہ یہ طلاق کب ہوئی تھی، اگر تو عدت باقی ہے، تو پھر بلانکاح رجوع کیا جاسکتا ہے، اگر عدت ختم ہوچکی ہے، تو پھر نکاح کرنا ضروری ہے۔

(4)  انسان کو صرف تین طلاقیں دینے کا اختیار ہوتا ہے ،  دو کے بعد رجوع کرسکتا ہے، تیسری کے بعد رجوع کا بھی حق نہیں ہوتا، لہذا رجوع کرنے  کے بعد، پہلے جتنی طلاقیں ہوچکی ہوں، وہ شمار کی جاتی ہیں، وہ ختم نہیں ہوتیں۔ پہلے دی ہوئی طلاقیں اس صورت میں ختم ہوتی ہیں، جب فیصلہ کن (تیسری)طلاق ہو جائے، اور خاتون عدت گزرنے کے بعد  آگے نکاح کرلے، پھر اگلا خاوند بھی اتفاق سے اس کو طلاق دے دے ، یا فوت ہوجائے ،تو خاتون پھر  پہلے خاوند کے ساتھ نکاح کرلے، تو ایسی صورت میں پہلے والی طلاقیں معدوم ہوجائیں گی۔

  • صورت مسئولہ میں چونکہ خاوند دو طلاقیں دے چکا ہے۔ لہذا رجوع سے پہلے اسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اب اس کے پاس آئندہ ایک مرتبہ طلاق دینے کا اختیار تو ہے، لیکن رجوع کا اختیار نہیں ہے، لہذا اگر اس نے ایک طلاق اور دے دی تو یہ طلاق فیصلہ کن شمار ہوگی۔اور اس کے بعد  رجوع کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی، نہ  صلح سے اور نہ ہی تجدید نکاح سے۔ لہذا اگر بچوں کو سامنے رکھتےہوئے، آپ لوگ صلح کرنا چاہتے ہیں، تو ضرور کریں، لیکن اس سےپہلے ان مسائل کا حل اور تدارک کی کوشش کریں، جن کی وجہ سے بات بار بار طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔  ہمارے ہاں بعض دفعہ طلاق کے  بعد مسائل کو سمجھے اور حل کیے بغیر رجوع میں جلدی کی جاتی ہے، لیکن اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ   دوبارہ پھر طلاق ہوجاتی ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف  سندھو  حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ