سوال

میاں بیوی کے مابین بوجہ طلاق عدت کے ختم ہوجانے کے بعد  آپسی صلح پر والد یا ولی انکار کریں، تو کیا حکم ہے؟

جواب

الحمدلله لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ  نے ایک جگہ فرمایا ہے ۔

وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ

(سورۃ البقرۃ: 232 )

” اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت پوری کرلیں تو انہیں ان کے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب کہ وہ آپس میں دستور کے مطابق رضامند ہوں۔“

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اولیا اور سر پرستوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اگر میاں بیوی آپس میں نکاح کر نے پر آمادہ ہیں ،اپنا گھر آباد کرنا چاہتے ہیں ،تو ولی کو چاہیےکہ وہ اس میں رکاوٹ نہ بنے۔ دراصل حضرت معقل بن یسا ر رضی اللہ عنہ  کی ہمشیرہ کو ان کے بہنوئی نے طلاق دے دی تھی ،عدت گزر جانے کےبعد دونوں نکاح پر آمادہ ہو گئے ، لیکن حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ  نےکہا کہ یہ کیسےہو سکتا ہےکہ ہم نے اپنی ہمشیرہ کا نکاح اس سے کیا اور اس کو عزت دی لیکن اس  نے یہ قدر کی کہ اس کو طلاق دے دی؟ لہذا اب دوبارہ نکاح ہرگز نہیں ہوگا۔ تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (صحیح البخاری:4529)

یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا ،تبھی تو ان کو  ناجائز روکنے سے منع کیا جارہا ہے۔

بہرصورت  اس حدیث سے یہ بات واضح ہوئی  کہ اگر پہلی یا دوسری طلاق کے بعد عدت ختم  ہوجائے تو میاں بیوی تجدیدِ نکاح کے ساتھ اپنے گھر کو آباد کر سکتے ہیں اور جو ولی یا سر پرست ہے اسے چاہیے کہ وہ سختی  کرتے ہوئے رکاوٹ نہ بنے۔ ولی اس لیے نہیں ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیٹی یا بہن پر جبر وزبردستی کرے،  بلکہ ولی کا وظیفہ یہ ہے کہ  لڑکی کی رضامندی کو سامنے رکھتے ہوئے ، کسی مناسب ترین رشتہ کا  انتخاب کرے، اور لڑکی کو بھی چاہیے کہ  جلدبازی  میں کوئی جذباتی فیصلہ کرنے کی بجائے ولی کی مدد واجازت کے مطابق  چلے، کیونکہ شریعت نے  ایک کامیاب و بہترین  نکاح کے لیے لڑکی کی رضامندی اور ولی کی اجازت دونوں کو بنیادی حیثیت دی ہے۔

  • اس سب کے باوجود اگر ولی تجدیدِ نکاح پر رضا مند نہ ہو  تو کیا وہ اپنا حقِ ولایت کھو بیٹھتا ہے ؟کیا ایسی صورت میں  ولایت کےاختیارات کسی دوسرے ولی کو منتقل ہو سکتے ہیں ؟

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ مُرْشِدٍ (السنن الصغير للبيهقي:2376، وحسنه ابن حجر فی الفتح (9/ 191)

یعنی نکاح کےلیے ’ولی مرشد‘  کا ہوناضروری ہے ۔

اور ’مرشد ‘ یعنی سمجھدار اسے کہیں گے، جو لڑکی کا خیر خواہ  و ہمدرد ہو ۔ جو ولی لڑکی کو نکاح سےروکتا ہے،اپنےاختیارات کو غلط استعمال کرتا ہے وہ اس کا ہمدرد نہیں ہے ،اس لیے وہ اپنے حقِ ولایت سے محروم ہو جاتا ہے ۔ پھر یہ حقِ ولایت آگے دوسرے ولی (دادا،بھائی  یا چچا   )کو منتقل ہو جاتا ہے۔یہ یاد رہے کہ حقِ ولایت  باپ  دادا وغیرہ کی طرف  ہی رہے گا ۔ماں ، نانا ، ماموں وغیرہ کی طرف منتقل نہیں ہوگا ۔ اگر کوئی بھی ولی موجود نہ ہو تو پھر جیسا کہ حدیث میں آیا ہے :

فَإِنْ اشْتَجَرُوْا فالسُّلطانُ وليُّ من لا وليَّ له (سنن الترمذی:1879)

اگر سب ہی رنجش وچپقلش کا شکار ہوجائیں، تو جس کا کوئی ولی نہ ہو،  حاکمِ وقت اس کا ولی ہوگا۔

لہذا ایسی صورت میں  وقت   کی  حکومت یا عدالت  خود فریق بن کر اس نکاح کے فرائض  سرانجام دیں گے۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے   اس مسئلہ کو بہت متوازن انداز سے بیان کیا ہے، اور اس حوالے سے وارد احادیث پر تین  ابواب  (عناوین) قائم کیے ہیں:

(1)ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔

(2)باپ ،دادا کو چاہیے  کہ اپنی زیرکفالت بچی کا نکاح اس کی رضامندی سے کریں۔

(3)اگرباپ دادا  زبردستی  کریں تو نکاح مردود ہوگا۔

اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دونوں چیزیں ہی ضروری ہیں ۔لڑکی کی رضامندی بھی ضروری ہے اور ولی کی اجاز ت بھی ضروری ہے ،اگر ولی اپنے اختیارات کو غلط استعمال کرتا ہے تو وہ حقِ ولایت سے محروم ہو جائے گااور جو لڑکی اپنےباپ دادا کی عزت کو داؤ پر لگاتے ہوئے خود نکاح  کرتی ہے ،اس کا نکاح بھی نہیں ہو گا ۔ لہذا لڑکی اپنے ولی کی عزت وآبرو کا خیال رکھے اور اس کی اجازت سےنکاح کرے  اور ولی کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی زیر ِکفالت  بہن یا بیٹی کا نکاح کرتے وقت اللہ سے ڈرے اور اس کی ہمدردی اور خیرخواہی کو مدنظر رکھ کر ہی نکاح کرے ،اس مقدس بندھن کو اپنے مفادات کی بھینٹ نہ چڑھائے۔

واللہ اعلم بالصواب ۔

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ  (رئیس اللجنۃ)

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور حافظ إسحاق زاہد حفظہ اللہ