سوال

سر ہم نے دو سال پہلے بچی Adopt کی تھی،بچی کی والدہ نے ہمیں بتایا کہ میری 6 ماہ پہلے شادی ہوئی تھی، میرا خاوند سعودی عرب چلا گیا تھا، اور کچھ ماہ بعد اسکا انتقال ہو گیا ،اور میں بیوہ ہو گئی۔ میرے سسرال والوں نے اب مجھے گھر سے نکال دیا ہے، میرے ماں باپ فوت ہو گئے ہیں، میرے بھائی اور بھابھیاں مجھے ساتھ نہیں رکھنا چاہتے ،اس لیے میں اپنے ہونے والے بچے کو نہیں پال سکتی۔ اس لیے آپ نے بچہ لینا ہے تو لے لیں۔ اس وقت وہ حاملہ تھی اسکے بعد ڈلیوری تک تمام اخراجات میں کرتا رہا۔ پھر بچی ہم نے لے لی، جب اس سے سٹامپ پیپر کرنےلگے، تو ہم نے نکاح نامہ مانگا، تو اس نے کہا کہ وہ میں گھر سے لانا بھول گئی، نہ ہی اس نے اپنا شناختی کارڈ دیا۔

اب ہم بچی کا یونین کونسل میں اندراج کروانے گئے، تو انھوں نے کہا اس کے اصل والدین کے شناختی کارڈ کی کاپیاں اور نکاح نامہ لائیں، جو ہمارے پاس نہیں ہیں۔ اور بچی کی والدہ سے اب ہمارا کوئی رابطہ بھی نہیں ہے۔

بچی کے بہتر مستقبل کے لئے ہمارا اس کو ساتھ انگلینڈ لے جانے کا پروگرام ہے، تو اس صورت میں جب بچی کے کاغذات میں اس سے ہمارا کوئی خونی رشتہ نہیں ہو گا، تو یقینا ہم اسے ساتھ نہیں لے جا سکیں گے۔ مطلب ہمیں مستقبل میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، اس کو بھی سامنے رکھتے ہوئے رہنمائی فرما دیں کہ ہم کیا کریں؟ قرآن و سنت کے مطابق کاغذات میں بطور والدین اپنا نام درج کروانا درست ہے؟  اور کیا بچی جب بالغ ہو تو ہمیں اسے بتانا ضروری ہے کہ اس کے والدین سے متعلق حقیقت کیا ہے؟اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو آمین

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

  • سوال میں جو کہانی بتائی گئی ہے، ہمیں اس کی سمجھ نہیں آرہی کہ اس جدید دور میں کیسے، کسی کی شناخت نہیں ہوسکتی، لہذا کوشش کریں کہ اس خاتون کا پتہ لگوایا جائے۔ اور اگر بالفرض کوشش کے باوجود پتہ نہ چل سکے، تو پھر شناختی کارڈ میں اس قسم کے کیسز کے لیے ولدیت کی بجائے ’سرپرست‘ کا خانہ ہوتا ہے۔ سول کوٹ، اور نادرا وغیرہ سے اس حوالے سے تفصیلی معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔پھر آپ بطور سرپرست اس بچی کے سارے معاملات کرسکتے ہیں۔
  • رہا اس بچی کے ڈاکومنٹس میں اپنی ولدیت لکھوانا، تو یہ کسی صورت جائز نہیں ہے۔ شریعت میں اس سے منع کیا گیا ہے۔ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ بولے بیٹے تھے، لوگوں نے انہیں زید بن محمد کہہ کر پکارنا شروع کردیا، تو اللہ تعالی نے اس سے منع کیا، اور فرمایا:

(اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآىٕهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِۚ (الاحزاب: 5)

’ان کو ان کے آباکی نسبت سے ہی پکارا جائے‘۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

إِنَّ مِنْ أَعْظَمِ الْفِرَى أَنْ يَدَّعِيَ الرَّجُلُ إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ. [صحيح البخارى:3509]

’سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ انسان اپنے حقیقی باپ کے علاوہ کسی کو اپنا باپ خیال کرے‘۔

ایک اور روایت میں ہے:

مَنْ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُ فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ .[صحيح البخارى:4326]

’جو اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف نسبت کرے، تو اس پر جنت حرام ہے‘۔

ایک اور حدیث میں اس عمل کو ’کفر‘ اور ایسا کرنے والے کو ’جہنمی‘ قرار دیا گیا ہے۔ (صحیح البخاری:3317)

لہذا  یہ عمل شریعت کی رو سے جائز نہیں۔ اور اس میں کئی حکمتیں ہیں، کیونکہ اگر اس طرح ولدیت تبدیل کردی جائے، تو پھر نسب، لین دین، وراثت اور دیگر کئی احکامات خلط ملط ہوجاتے ہیں۔ بقول آپ کے اس بچی کے والدین کا  کوئی پتہ نہیں، لیکن کل کو اگر وہ بچی کو تلاش کرتے کرتے پہنچ جائیں، تو یہ اس سے بڑا مسئلہ ہوگا کہ ایک ہی بچی کے دو والد کیسے ہوسکتے ہیں؟

لہذا آپ حقیقت کے مطابق چلیں، خود کو بطور سرپرست لکھوا کر معاملات آگے بڑھائیں۔ اس میں کوئی شک نہیں، کہ یہ  معاملات مشکل ہوتے ہیں، لیکن بہرصورت اللہ تعالی نے آپ کو حقیقی اولاد سے محروم رکھ کر، ایک منہ بولی بیٹی کی صورت میں تحفہ دیا ہے، تو آپ کو  اس بیٹی کی محبت، اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں یہ سب محنت اور مشقت  برداشت کرنی چاہیے۔

  • ایک اور اہم مسئلہ بھی ذہن میں رکھیں، بچی جب جوان ہوگی، تو آپ چونکہ اس کے لیے غیر محرم ہیں، اس لیے پردے کے مسائل بھی آئیں گے۔ لہذا ابھی سے اپنی بہن وغیرہ کا دودھ اسے پلوا کر، اس سے رضاعت کا رشتہ بھی قائم کرلیں۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف  سندھو  حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ