سوال

آج کل گوٹ فارمنگ میں نت نئے تجربات کیے جا رہے ہیں۔نر ہرن کا کراس عام ٹیڈی بکریوں سے کروا کے یہ نسل حاصل کی جا رہی ہے، جو کہ بہت خوبصورت اور فربہ ہوتی ہے۔میرا آپ سے یہ سوال ہے کہ کیا اس  جانور کی قربانی جائز ہو گی؟

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

صورت مسؤلہ میں ہرن اور بکری سے جو بچہ پیدا ہو، اگر وہ ہرن کے مشابہ ہے، تو اس کی قربانی ناجائز ہے، درست نہیں۔  اگر وہ بکری یا بکرا  کےمشابہ ہے ،تو اس کی قربانی جائز ا ور درست ہے، کیونکہ شرعا بکری اور بکرا قربانی کے جانوروں میں شامل ہیں، لہذا اس کی  قربانی کرنا جائز ہے  ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

“وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ”.[الحج :34]

’اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر کیے ہیں ،تاکہ وہ ان پالتو جانوروں پر اللہ کا نام لیں، جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں ‘۔

باقی شروط ِقربانی جو سنت سے ثابت ہیں، انہیں بھی ملحوظ رکھا جائے ۔

مختصر اور اصولی جواب یہی ہے، البتہ اس کو مزید سمجھنے کے لیے  کچھ تفصیل ملاحظہ فرمائیں:

اللہ تعالی نے ہر ذی روح کی بقائے نسل کی بنیاد ’کروموسومز ‘پر رکھی ہے، جو نر اور مادہ کے جسم میں موجود ہوتے ہیں۔ مثلا انسان کے 46 کروموسومز ہوتے ہیں ، یعنی 23 ماں سے اور 23 باپ سے، اور یہ مل کر جوڑا جوڑا ہوجاتے ہیں۔ 22 جوڑوں سے جسم کے حصے بنتے ہیں۔ مثلا بال، ہڈی،دانت، رنگ، شکل  وغیرہ ،اور آخری جوڑے سے نر اور مادہ جنس بنتی ہے۔ اس طرح ہر حیوان کے کروموسومز ہوتے ہیں۔

کسی بھی جنس کی پیدائش کیلئے، نر اور مادہ میں ان کروموسومز کی تعداد ، اوصاف  اور ان کی  ترتیب کا یکساں ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اگر نر مادہ کی جنس قریب ہو  جیسے گھوڑی اور گدھا ہے، اس سے بچہ  (خچر) تو پیدا ہو جائے گا، لیکن آگے جنس نہیں چلتی ۔ اوراگر جنس بعید ہو، تو کروموسومز کی ہم آہنگی نہ ہونے کے سبب بچہ پیدا ہی نہیں ہوتا۔ جیسے خنزیرا ور گائے کا کراس نہیں ہوگا۔

’’کروموسومز‘‘ کی تحقیق کے بعد ہم اندازہ کر سکتے ہیں۔ کہ تغلیب کس کی ہے؟اگر تغلیب بکری کی ہے، تو بکری خیال کریں گے۔ خواہ نر ہو یا مادہ ۔اگر تغلیب ہرن کی ہو تو وہ’ بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ‘سے نہیں ہے۔ اس کی قربانی نہیں ہوگی۔

جیسا کہ ذکر کیا کہ کروموسومز میں سے ایک ہوتا ہے،جس سے نر اور مادہ بنتے ہیں۔باقی سے جسم کی تخلیق ہوتی ہے، اور جسم کے کئی حصے ہوتے ہیں۔ اگر نطفہ بکرے کا ہے،اور اس میں کچھ اجزاء ہرن کے شامل کیے جاتے ہیں۔ تو ان اجزاء کی وجہ سے صرف چہرے کی بناوٹ ہرن جیسی ہے، پھر تو کوئی حرج نہیں ہے، اس کی  قربانی کی جا سکتی ہے۔ لیکن اگر ہرن کے کروموسومز سے گوشت اور خلیوں کو تیار کیا جاتا ہے، تو پھر وہ شکل و صورت  چاہے کسی کی بھی ہو، کیونکہ بقیہ حصہ اور گوشت ہرن کا ہے، اس کی  قربانی جائز نہیں ہے۔ اس کو ایسے بھی کہہ سکتے ہیں کہ جو کیمیائی تبدیلی کی جاتی ہے، اگر وہ گوشت بڑھانے کے لئے کی گئی ہے، تو وہ گوشت ہرن  کا ہے، لہذا قربانی جائز نہیں ہے۔ اور  اگر تبدیلی خوبصورتی کے لیے کی گئی ہے، صرف شکل وشباہت میں تبدیلی ہوئی ہے، تو پھر گوشت بکرے کا ہے اور قربانی جائز ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف  سندھو  حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ