سوال

میاں بیوی کے مابین ناخوشگوار تعلقات کی بناپر، شوہر نے بیوی کو واٹس ایپ کے ذریعے بھی طلاق دی، پھر باقاعدہ نوٹیفکیشن بھی بھجوایا، جس میں لکھا ہوا تھا کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہوں۔ جبکہ اب وہ اس سے مکر رہا ہے، کہ میں نے طلاق نہیں دی، لہذا اگر عورت علیحدہ ہونا چاہتی ہے، تو خلع لے ، میں نے طلاق نہیں دینی۔ نوٹیفکیشن کی تصویر بھی ساتھ موجود ہے۔ تو کیااب یہی طلاق کافی ہے، یا پھر عورت کو خلع لینا ضروری ہے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

یہ بات درست ہے کہ طلاق دینا نہ دینا مرد کا حق ہے، اگر وہ طلاق نہیں دینا چاہتا، تو عورت علیحدگی کے لیے خلع لے گی۔ لیکن صورتِ مسؤلہ میں ہم نے نوٹیفکیشن ملاحظہ کیا ہے، جس میں صراحت کے ساتھ یہ عبارت لکھی ہوئی کہ محمد سروش اکبر نے اپنی زوجہ آسیہ دختر محمد اسماعیل کو بقائمی حوش و حواس طلاقِ اول دی ہوئی ہے۔
لہذا یہ طلاق واقع ہوگئی ہے۔ البتہ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد شوہر کے لیے عدت کے اندر اندر رجوع کا اختیار ہوتا ہے، اور اگر عدت گزر جائے، تو پھر نئے سرے سے عورت او راس کے اولیاء کی رضامندی سے نئے حق مہر کے ساتھ نکاح کیا جاسکتا ہے۔
صورتِ مسؤلہ میں چونکہ خاوند نے عدت کے اندر اندر رجوع بھی نہیں کیا، اور اسی طرح اب نئے سرے سے نکاح کرنے کے لیے عورت اور اس کے اولیاء بھی راضی نہیں ہیں۔ لہذا آسیہ بی بی کو خلع لینے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ وہ محمد سروش اکبر سے طلاق لے کر، عدت بھی گزار چکی ہے۔ بلکہ اگر چاہے، تو کسی اور سے نکاح کرسکتی ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف سندھو حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ