سوال

ہبہ سے متعلق مفتی صاحب کی خدمت میں چند گزارشات کرنے کے بعد کتاب و سنت کی روشنی میں فتویٰ حاصل کرنا چاہتا ہوں :

میرے سمیت ہم تین بھائی اور ایک بہن ہیں ہمارے والد صاحب  کی گھر کی جگہ کی قیمت 6لاکھ روپے تھی جو کہ آج سے تقریبا 10 سال پہلے فروخت کی جا چکی ہے،والد محترم کے ساتھ رہتے ہوئے میں اپنے ذاتی کمائی سے مکان کی تعمیر میں 65 ہزار روپے لگایا ہے یہ وہ مکان ہے جو بعد میں 6 لاکھ کا فروخت ہوا ہے ۔اسی دوران دوسرے بھائی نے اپنی ذاتی کمائی میں سے نشتر کالونی لاہور میں تین مرلہ کا پلاٹ خریدا، اس  کی مالیت تقریبا سات لاکھ روپے تھی جبکہ وہ ہمارے ساتھ رہتا تھا اس دوران اس بھائی نے تقریبا  دو سال تک گھر میں خرچہ نہیں دیا ۔اب 6 لاکھ والد نے دو ،دو   ، لاکھ تین بھائیوں میں تقسیم کر دئیے ہیں ۔اور بڑے بھائی نے دو لاکھ والد صاحب کو واپس کر دئیے ہیں والدین نے ان پیسوں سے عمرہ کر لیا ہے ۔

وضاحت طلب بات یہ ہے کہ بہن کو دو بھائی حصہ دینے کے پابند ہیں یا تینوں دیں گے ؟ اور سائل نے جو 65 ہزار تعمیر میں لگایا اور دوسرے بھائی نے جو سات لاکھ کی پراپرٹی خریدی والد صاحب کے ساتھ رہتے ہوئے یہ کس طرح تقسیم ہوگی ؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت فرما دیں۔

محمد حسین ولد محمد شفیع

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

  • پہلے تو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اگر باپ اپنی اولاد کو بطور ہبہ یعنی ہدیہ اور تحفے کے کچھ دینا چاہتا ہے، تو اس میں مساوات ضروری ہیں، اور اس میں وراثت کی طرح مذکر ومؤنث کا بھی فرق نہیں ہوگا۔

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کے والد نے انہیں ایک غلام ہدیہ کیا، انہوں نے کہا کہ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو  گواہ بنالیں، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے، تو آپ نے پوچھا: آپ کی اس کے علاوہ بھی اولاد ہے؟ کہا: جی ہاں، فرمایا: ان سب کو بھی یہ تحفہ دیا ہے؟  عرض کیا: نہیں، آپ نے فرمایا: میں ظلم پر گواہ نہیں بن سکتا،  یا تو سب کو دیں، یا پھر اس کو بھی واپس کریں، لہذا نعمان رضی اللہ عنہ سے وہ تحفہ واپس لے لیا گیا۔ ( صحیح بخاری:2586،2587،2650)

لہذا آپ کے والد محترم نے جو صرف اپنے بیٹوں میں پیسے تقسیم کیے ہیں، اور بیٹی کو کچھ نہیں دیا، یہ درست نہیں، بلکہ جتنا آپ بھائیوں کا حصہ ہے، اتنا آپ کی بہن کو بھی دیا جائے گا۔

  • آپ نے اپنی ذاتی کمائی سے جو 65 ہزار روپیہ مشترکہ مکان کی تعمیر میں لگایا تھا، وہ آپ کو واپس کیا جائے گا۔ اسی طرح آپ کے بھائی نے جو ذاتی کمائی سے الگ پلاٹ لیا ہے، وہ  بھی اسی کی ملکیت ہے، وہ آپ کے باپ کے مال میں شمار نہیں کیا جائے گا۔ ہاں البتہ  جسطرح آپ دو سال تک گھر کا خرچ چلاتے رہے ہیں، اپنے بھائی کے ساتھ حسنِ سلوک کرتے رہے ہیں، اگر وہ بھی نیکی اورصلہ رحمی کے طور پر اپنے اس پلاٹ میں سے آپ کو کوئی حصہ دے تو یہ ایک مستحسن عمل ہے، لیکن وہ اس کا پابندنہیں ہے۔ آپ کے والد محترم کے ہبہ میں آپ کے بھائی کا بھی برابر حصہ ہے، لیکن اگر اس نے نہیں لیا، یا انہیں پیسوں سے والدین کو عمرہ کروا دیا ہے، تو یہ ایک بہترین نیکی اور صلہ رحمی ہے۔
  • آپ کے والد صاحب کے 6 لاکھ سے آپ کا 65 ہزار آپ کو واپس کیا جائے گا، بقیہ رقم (پانچ لاکھ پینتیس ہزار) کو برابر چار حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، اور آپ چاروں بہن بھائیوں میں سے ہر ایک کو  (ایک لاکھ تینتیس ہزار  سات سو پچاس) روپے حصے میں آئیں گے۔  لہذا آپ کے وہ بھائی جو اس سے زائد رقم لے چکے ہیں، وہ واپس کریں، تاکہ آپ کی بہن کا حصہ انہیں  مل جائے۔

واللہ اعلم بالصواب

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ  (رئیس اللجنۃ)

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور حافظ محمد اسحاق زاہد حفظہ اللہ