سوال

میں ایک مسجد میں خطیب ہوں اور ساتھ کچھ کاروبار بھی ہے،مجھے کاروبار کے لیے انوسٹمنٹ کی ضرورت ہے۔ جہاں میں جمعہ پڑھاتا ہوں وہاں ایک نمازی ہیں وہ میرے حصہ دار بننا چاہتے ہیں،وہ پیسے لگائیں گے اور میں کام کروں گا،دونوں کا فائدہ ہوجائے گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ بھائی وکیل ہیں،مجھے پریشانی یہ ہے کہ وکیل کے کمائے ہوئے پیسوں کا کوئی مسئلہ تو نہیں ہے؟! وہ بھائی مخلص ہیں نمازی بھی ہیں توحید والے ہیں، مسجد سے ماہانہ اچھا تعاون بھی کرتے ہیں،میری ان سے بات بھی ہوئی تھی وکلاء کے معاملات بارے، تو انہوں نے کہا کہ ہم صرف قانون کے مطابق چلتے ہیں اور سروسز کے پیسے لیتے ہیں..جھوٹ نہیں بولتے…!

میری رہ نمائی کریں کہ ان کے ساتھ حصہ داری پر کاروبار کرسکتا ہوں؟ یہ جائز ہے؟

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

  • ہمارے ملک کا عدالتی نظام ایسا ہے کہ براہ راست کوئی اپنا معاملہ عدالت میں پیش نہیں کرسکتا، بلکہ اس کے لیے وکیل کرنا پڑتا ہے۔ وکالت ایک جائز ومشروع کام ہے، اگر اس میں  حق و سچ کابیان اور مظلوم کا دفاع وحمایت مقصود ہو۔ لیکن یہاں خرابی یہ ہے کہ وکیل حضرات ظالم کی حمایت اور مظلوم کی مخالفت  کاارتکاب کرتے ہیں، جو کسی صورت جائز نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

{وَلَا تَكُنْ لِلْخَائِنِينَ خَصِيمًا} [النساء: 105]

کہ آپ خیانت پیشہ لوگوں کے وکیل نہ بنیں۔

  • صورت مسؤلہ میں وکیل صاحب کا بیان ہے کہ وہ وکالت میں کسی قسم کا غیر قانونی یا غلط کام نہیں کرتے، لہذا ان کی کمائی حلال ہے، اور ان کے ساتھ کاروبار کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ہاں اگر وہ غلط بیانی کریں گے تو وہ اللہ کے ہاں جوابدہ ہیں۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ  (رئیس اللجنۃ)

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور حافظ محمد اسحاق زاہد حفظہ اللہ