سوال

ایک بڑا بھائی ہے، جس نے اپنے والد کی وفات کے بعد، اپنے بہن بھائیوں کی شادی کی اپنے مال سے۔  اس وقت سے آج تک کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا۔  البتہ اب وراثت کی تقسیم کے وقت وہ بھائی کہتا ہے ،کہ شادی کرنا میری ذمہ داری نہیں تھی ۔ پہلے میرے وہ پیسے ادا کرو، بعد میں تقسیم وراثت ہو گی ۔کیا اس کا مطالبہ درست ہے کہ نہیں؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

  • ہمارے ہاں وراثت کی تقسیم میں عموما کوتاہی کی جاتی ہے، اور جان بوجھ کر سستی کاہلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تاخیر کی جاتی ہے۔ حالانکہ وراثت کی تقسیم کا حکم اختیاری و رضا کارانہ نہیں ہے، کہ تقسیم کر دیں تو اچھا ہے اور نہ ادا کریں تو کوئی بات نہیں، بلکہ یہ لازمی طور پر واجب التعمیل حکم ہے۔ جس کی ہر حال میں پیروی کرنا ایمان والے پر لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

“فر یضة من الله”. [سورۃ النساء : ۱۱] یہ حصے اللہ نے مقرر کر دیے ہیں۔ایک دوسرے مقام پر اللہ نے فرمایا ہے۔ “یو صیکم الله”.  [سورۃ النساء : ۱۱] اللہ تمھیں ہدایت کرتا ہے۔”وصیة من الله”. [سورۃ النساء :۱۲] یہ حکم ہے اللہ کی طرف سے۔”نصیبا مفروضا”.  [سورۃ النساء :۷] یہ حصہ ( اللہ کی طرف سے) مقرر ہے۔ ترکہ زیادہ ہو یا کم اس کی تقسیم کا حکم دیا گیا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن ِ کریم میں فرمایا ہے:

 “لِلرِّجَالِ نَصیِبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاء نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنهُ أَوْ کَثُرَ نَصِیْباً مَّفْرُوضا”. [ سورۃ النساء: ۷]

’ماں باپ اور خویش واقارب کے ترکہ میں مردوں کا حصہ بھی ہے اور عورتوں کا بھی۔ (جو مال ماں باپ اور خویش واقارب چھوڑ مریں) خواه وه مال کم ہو یا زیاده (اس میں) حصہ مقرر کیا ہوا ہے‘۔

وراثت کی ادائیگی کی طرف قرآن نے بار بار توجہ اس لیے دلائی ہے، کہ اس سلسلے میں غفلت و کوتاہی ہونے کے امکانات زیادہ تھے، اور آج عملاً معاشرے میں یہ غفلت عام نظر آتی ہے۔ دوسرے یہ کہ کمزور وارثین کے حقوق کی پامالی آسانی سے کی جاتی ہے۔ قرآنی آیات میں اس بات پر زور  دیا گیا ہے  کہ ترکے میں جس کسی کا بھی حق ہے، اس کی ادائیگی کا اہتمام کیا جائے۔ اور اس ضابطے کے مطابق کیا جائے جو اللہ نے مقرر کیا ہے۔ ترکے میں حصہ متعین کرتے وقت نہ تو کسی کی من مانی چلے گی۔  اور نہ ہی اس کی ادائیگی میں سستی جائز ہے۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کے لیے جہنم کی دردناک سزا سنائی گئی ہے۔ وراثت کی تقسیم کو اللہ کے حدود سے تعبیر کیا گیا ہے، ان کو توڑنا اللہ کے غضب کو دعوت دینا ہے۔ اور اس کی ادائیگی پر جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 “تلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ وَمَن یطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ یدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ۔ وَمَن یعْصِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَیتَعَدَّ حُدُودَهُ یدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِیهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِینٌ”.[سورۃ النساء :۱۳،۱۴]

یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں ۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کر جائے گا اسے اللہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔

  • ہماری مشرقی روایات کے مطابق والد کی وفات کے بعد گھر کا نظام بڑا بھائی ہی چلاتا ہے، اور آمدن اور اخراجات مشترکہ ہوتے ہیں، الا یہ کہ باپ کی وفات کے بعد ہی فورا وراثت تقسیم کردی جائے، تو پھر سب اپنا اپنا گھر خود سنبھالتے ہیں۔

صورتِ مسؤلہ میں ہمیں جو سمجھ آرہی ہے، وہ  یہ ہے کہ مشترکہ نظام تھا۔ گویا آمدن اور اخراجات میں سب برابر کے شریک تھے۔ ایسی صورت میں مشترکہ کھاتے میں جو کچھ بھی آیا، یا خرچ ہوا، وہ کسی ایک کا نہیں سمجھا جائے گا۔

بڑے بھائی نے  جس مال سے بہن بھائیوں کی شادیاں کی ہیں، ممکن ہے وہ اسی وراثت کے مال سے نفع ہوا ہو ، جس کے  وہ سب بہن بھائی مشترکہ وارث ہیں ۔ اور اگر صورتِ حال مختلف تھی تو اسے پیسے خرچ کرتے ہوئے، واضح کردینا چاہیے تھا کہ یہ  سب میرے ذاتی پیسے ہیں، اور مشترکہ کھاتے سے نہیں ہیں، لہذا کل کو آپ لوگوں نے یہ قرض مجھے ادا کرنا ہے۔ اگر بڑے بھائی نے اُس وقت ایسا نہیں کیا، تو اب وراثت کی تقسیم کے وقت مطالبہ کرنا، صحیح نہیں ،  بلکہ ظلم پر مبنی ہے۔اب جس کا جتنا حصہ بنتا ہے۔حصص شرعی کے مطابق ان کو ادا کر دیا جائے۔ جب شادیاں کرتے وقت لوگوں کو یہ باور کرایا ہے کہ میں اپنی ذمہ داری پوری کر رہا ہوں۔ تو اب بھی اپنی ذمہ داری کو پورا کرتے ہوئے ان سب کا حصہ ان کو دے دے۔ کیونکہ یہ حقوق العباد کا مسئلہ ہے۔  اور اس کی معافی نہیں ہے۔اور اللہ تعالی کی مقرر کردہ  حدود ہیں، ان کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ