سوال

کیا ہم کہیں کوئی جگہ خرید کر اس پر مسجد بنائیں اور مسجد کا نام مسجد الحرام  یا مسجد نبوی رکھ سکتے ہیں ؟ یا پھر یہ دونوں نام حرمین کے ساتھ خاص ہیں ؟

اسی طرح ہم اگر کوئی جگہ حاصل کرکے وہاں قبرستان بنائیں ، تو اس کا نام البقیع یا جنت البقیع، یا   المعلیٰ یا جنت المعلیٰ نام رکھ سکتے ہیں ؟یا یہ نام بھی خاص ہے  مکے مدینے کے معروف قبرستانوں کے ساتھ خاص ہیں؟  لجنۃ کے علمائے ذی وقار شرعی نقطہ نظر سے آگاہ فرمائیں۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

  • بطور پہچان جسطرح بہت ساری اشیاء اورمقامات کے نام رکھے جاتے ہیں، مسجد کا نام رکھنا بھی  مشروع ہے۔ جس کی متعدد صورتیں ہیں، مثلا:
  1. جس نے مسجد کی تعمیر کی ہے اس کی طرف بھی اس کی نسبت کی جا سکتی ہے۔جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کی تعمیر کی تھی اس بنا پر اس کو مسجد الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کہا جا سکتا ہے۔
  2. اکثر نمازی جو اس مسجد میں نماز پڑھتے ہیں ان کے قبیلے کی طرف بھی اس کی نسبت کی جا سکتی ہے، جیسا کہ مسجد ِزریق کا ذکر احادیث میں آتا وہاں اکثر بنی زریق کےلوگ نمازیں پڑھا کرتے تھے۔
  3. جس محلے میں وہ مسجد واقع ہو اس کے نام پر بھی  نام رکھا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ مسجدِ قباء، کیونکہ یہ  قبا  بستی میں بنائی گئی تھی ۔
  4. اسی طرح اللہ کے نام پر مسجد کا نام رکھا جا سکتا ہے، جیسے مسجد الرحمن، مسجد السلام  وغیرہ۔
  5. کسی مسجد کا صحابی کی طرف نسبت کر کے نام رکھنا جیسے مسجد ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ مسجد عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد عثمان رضی اللہ تعالی عنہ اور مسجد علی رضی اللہ تعالیٰ عنھم وغیرہ۔
  6. ویسے ہی مسجد کی امتیازی حیثیت برقرار رکھنے کے لئے  نام رکھا جائے۔اس کی پھر دو صورتیں ہیں:
  • اس امتیاز کی کوئی خصوصیت احادیث مبارکہ میں آئی ہو۔جیسا کہ مسجدِ حرام ، مسجد اقصی، مسجد نبوی ہے۔ان کی فضیلت کے بارے میں احادیث آئی ہیں۔
  • دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے لئے کوئی فضیلت نہ ہو۔محض مسالک سے ممتاز کرنے کے لئے اس کا نام رکھا جائے۔جیسے مسجد اہل حدیث وغیرہ۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اس نام رکھنے میں تعصب نہ ہو۔ یعنی محض اس لیے یہ نام رکھا جائے، کہ لوگ اگر اہل حدیث مسجد کی تلاش میں ہوں، تو انہیں ڈھونڈنا آسان ہو۔ اس لیے امتیاز یا تخصیص درست نہیں کہ  دیگر مسالک کے لوگوں کو اس میں آنے کی اجازت نہیں ، وغیرہ۔ قرآن حکیم میں  اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

“واَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰهِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰهِ اَحَدًا”.  [سورۃ الجن:18]

اور یہ کہ مسجدیں صرف اللہ ہی کے لئے خاص ہیں ،پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔

لہذا مسجدیں اللہ تعالی کا گھر ہیں،  اور اس کی عبادت کے لیے خاص ہیں، انہیں کسی  قوم، قبیلے، سوچ و فکر کے  لیے خاص کرکے، دیگر کا داخلہ ممنوع قرار دینا درست نہیں ہے۔

  • جہاں تک بات ہے کہ کسی مسجد کا نام مسجد نبوی یا مسجد حرام پر رکھنا، تو اگر کوئی تلبیس اور دھوکہ دہی کے لیے یہ کام کرتا ہے، تاکہ کسی اور مسجد کے لیے بھی وہی فضائل ثابت کرے، جو ان عظیم الشان مساجد کے لیے ہیں، تو یہ  ناجائز ہے۔ لیکن اگر کسی کہ یہ نیت نہیں بھی ہے تو پھر بھی  یہ عرف کے خلاف ہے۔ یعنی مسلمانوں میں دیگر مساجد کے یہ نام رکھنے کا عرف نہیں ہے۔ لہذا اس سے گریز کرنا چاہیے، تاکہ کسی قسم کا اشتباہ نہ ہو۔  اسی طرح کسی اور قبرستان کو  بقیع یا معلٰی  نام دینا بھی جائز نہیں ہے۔

واللہ اعلم

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ