سوال

میرے والد صاحب کا الیکٹرانکس کا کاروبار ہے۔ اس کاروبار میں والد صاحب کے ایک دوست نے 5 لاکھ روپے انویسٹ کیے اور معاہدے میں یہ بات لکھی گئی کہ میرے والد صاحب انویسٹمنٹ کرنے والے دوست کو ماہانہ 20 ہزار روپے کی قسط ادا کریں گے جو کہ کُل انویسٹ کی گئی رقم کا 4 فی صد ماہانہ بنتا ہے۔اسکے ساتھ یہ بھی طے پایا کہ کل رقم کا 80 فیصد منافع دیا جائے گا جسکے مطابق جب 9 لاکھ روپے کی ادائیگی مکمل ہوجائے گی تو دوست کی انویسٹمنٹ ختم ہوجائے گی۔

اس ایک انویسٹمنٹ کے علاوہ انہی شرائط پر 5، 5 لاکھ روپے کی 2 مزید انویسٹمنٹ کی گئی ان پر بھی 20 ہزار روپے ماہانہ قسط طے پائی اور 5 لاکھ روپے پر 9 لاکھ روپے واپس کرنا طے پایا۔

جبکہ ایک انویسٹمنٹ انہی شرائط پر 10 لاکھ روپے کی کی گئی جسکی ماہانہ قسط 40 ہزار روپے طے پائی۔ اس میں بھی منافع کل رقم کا 80 فیصد طے پایا جس کے مطابق 10 لاکھ کی انویسٹمنٹ پر جب ٹوٹل 18 لاکھ کی ادائیگی ہوجائے گی تو انویسٹمنٹ ختم تصور کی جائے گی۔

اسکے بعد ایک مزید انویسٹمنٹ 10 لاکھ روپے کی کی گئی جس میں کُل منافع اصل رقم کا 100 فیصد طے کیا گیا ماہانہ قسط 40 ہزار روپے طے کی گئی اور کل 50 اقساط یعنی 20 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد انویسٹمنٹ کا ختم ہونا طے پایا گیا۔

یعنی کُل ملا کر 35 لاکھ روپے کی رقم انویسٹ کی گئی اور یہ طے پایا کہ اصل رقم اور منافع ملا کر کُل 65 لاکھ روپے واپس کیے جائیں گے۔ اس پورے معاہدے میں کاروبار کو ہونے والے نفع یا نقصان کا کوئی ذکر نہیں محض انویسٹ کی گئی رقم پر فکس پرافٹ طے کیا گیا جو ماہانہ اقساط کی صورت میں ادا کرنا تھا۔

میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ:

1: کیا ایسا معاہدہ کرنا شریعت کی رُو سے جائز و حلال ہے یا پھر یہ حرام یا سود کے زُمرے میں آتا ہے؟

2: اگر یہ سود کے زُمرے میں آتا ہے تو کیا اس معاہدے  کو جاری رکھنا چاہیے؟ والد صاحب اس معاہدے کی رُو سے 35 لاکھ پر پہلے ہی تقریباً 48 لاکھ روپے کی ادائیگی کر چکے ہیں۔ جبکہ انویسٹ کرنے والے دوست کو جب بتایا گیا کہ یہ سُود ہے تو انکا کہنا تھا کہ اگر یہ سُود ہے تو باقی کی رقم وہ نہیں لیں گے۔ ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

1- یہ معاہدہ شرعا سود کے زمرے میں آتا ہے، کیونکہ یہ قرض کے عوض متعین نفع ہے جو قسط وار ادا کیا جانا ہے. لہذا یہ سودی معاملہ ہونے کی وجہ سے حرام ہے۔

2- چونکہ یہ معاہدہ سودی ہے لہذا اسے فی الفور ختم کرنا ضروری ہے، فرمان باری تعالیٰ ہے:

{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ * فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ} [البقرة: 278، 279]

اے اہل ایمان اللہ سے ڈرو، اور باقی ماندہ سود چھوڑ دو، اگر  تم مؤمن ہو. اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اسکے رسول کی طرف سے اعلان جبگ سن لو! اور اگر تم توبہ کر لو تو تمہارے لیے تمہارے راس المال ہیں. نہ تم ظلم کرو، نہ تم پہ ظلم کیا جائے۔

ھذا، واللہ تعالی أعلم، وعلمہ اکمل وأتم۔

مفتیانِ کرام

تحریر کنندہ:أبو عبد الرحمن محمد رفيق طاہر عفا اللہ عنہ

’’جواب درست ہے۔‘‘

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ  (رئیس اللجنۃ)

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ