سوال

آیت الکرسی کو 313 بار چالیس دن تک پڑھنا، اورسورۃ القصص کی ایک آیت کو ہر نماز کے بعد 313 مرتبہ پڑھنا  ،کیا اس طرح نصوص سے ہٹ کر عدد کو مخصوص کرنا ٹھیک ہے؟

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

  • نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے،جوشخص دن میں یہ دعا سو مرتبہ پڑھے گا:

“لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ”

اسے دس غلاموں کو آزاد کرنے کا ثواب دیاجائے گا۔ سونیکیاں اس کے نامہ اعمال میں لکھی جائیں گی اور سو برائیاں اس سے مٹا دی جائیں گی۔ مزید برآں وہ شخص سارا دن شام تک شیطان سے محفوظ رہے گا۔ نیز کوئی شخص اس سے بہتر عمل نہیں لے کر آئے گا، البتہ وہ شخص جو اس سے زیادہ  پڑھے گا۔ [بخاری:3293، مسلم:2691]

اس حدیث میں مذکورہ دعا یا وظیفہ کی سو کی تعداد کی تحدید کرنے کے بعد اس سے بھی زیادہ پڑھنے اور اس پر ثواب کا ذکر ہے۔جس  کا مطلب ہے،کہ  وظائف کے سلسلے میں   مسنون تعداد سے زیادہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔

  • اگر کوئی کسی بزرگ ،روحانی علاج کرنے والے، یا قرآن کے ذریعے جسمانی علاج کرنے والے کا تجربہ ہے، جیسا کہ آیت الکرسی، آیتِ کریمہ، یا درود شریف، یا دیگر قرآنی آیات پڑھنے کے لیے کہا جاتا ہے،تو اس میں کوئی  حرج والی بات نہیں ہے۔ البتہ اس کو سنت کا درجہ دینا درست نہیں ہے۔ صرف اتنا کہا جائے گا ،کہ یہ جائز  اور مجرب ہے۔مثلاً  ہمارا تجربہ ہے، کہ جو شخص (سورةالفاتحة) اور (سورۃ البقرة)کی پہلی آیات اور (آیت الکرسی) اور (آخری چار قل) اگر ایک خاص  ترتیب اور مقدار سے پڑھے، تو اللہ کے فضل و کرم سےاسےکوئی تکلیف نہیں ہوتی۔

اگر کوئی کہے اس کا حوالہ قرآن و سنت سے دیں،تو اس کا یہ سوال درست نہیں ہے، کیونکہ یہ  ذاتى تجربہ ہے۔ تجربہ کی بنا پر کسی آیت ، دعا یا ذِکر کو خاص مقدار میں  کسی مرض کے لیے پڑھنا، یا کسی کو بتانا جائز ہے۔ بالخصوص قرآن سارے کا سارا شفا ہے،اس میں کوئی شک نہیں ۔اس کو بطور ثواب  اوربطور علاج دونوں طرح پڑھنا درست ہے۔

بخاری(5736) و مسلم (2201)کی مشہور روایت ہے کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے ایک سانپ کے ڈسے ہوئے، آدمی کو سورہ فاتحہ سے دم کیا تھا۔

اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کو کہا تھا: ’اگر شرکیہ الفاظ نہ ہوں، تو  ان وظائف میں کوئی حرج نہیں‘۔(مسلم:2200)

امام شوکانی  رحمہ اللہ   فرماتے ہیں:

“وَفِي الْحَدِيثَيْنِ دَلِيلٌ عَلَى جَوَازِ الرُّقْيَةِ بِكِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى وَيَلْتَحِقُ بِهِ مَا كَانَ بِالذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ الْمَأْثُورِ وَكَذَا غَيْرُ الْمَأْثُورِ مِمَّا لَا يُخَالِفُ مَا فِي الْمَأْثُورِ”. [نيل الأوطار :5/ 347]

’ان احادیث  سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کے ساتھ ، یا مسنون اذکار، یا ایسے  غیر مسنون اذکار ، جو شریعت کے خلاف نہ ہوں، سے دم کرنا جائز ہے‘۔

بعض صحابہ کرام نے اپنے تجربہ شدہ اوراد و وظائف اور دم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیے، تو آپ نے فرمایا:

“مَا أَرَى بَأْسًا، مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يَنْفَعَ أَخَاهُ فَلْيَنْفَعْهُ”. [مسلم:2199]

’کوئی حرج نہیں، جو کوئی اپنے بھائی کو فائدہ پہنچا سکتا ہو، اسے پہنچانا چاہیے‘۔

امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’اس سے ثابت ہوتا ہے، کہ ہر فائدے مند دم جائز ہے‘۔ [شرح معاني الآثار4/326]

  • دعا، اذکار اور وظائف میں جائز، ناجائز میں فرق کے لیے درج ذیل شرائط ذہن میں رکھنی چاہییں:
  1. وہ خلافِ شریعت، الفاظ و معانی پر مشتمل نہ ہو۔
  2. اس کا کوئی معقول ومفہوم معنی ہو۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ الفاظ اور آوازیں ہوں، لیکن سمجھ کچھ بھی نہ آرہا ہو۔
  3. دعا یا وظیفہ کرتے ہوئے، یہ عقیدہ رکھا جائے، کہ یہ صرف ایک سبب اور ذریعہ ہے، تاثیر ڈالنے والی اللہ کی ذات ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف  سندھو  حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ