سوال

موجودہ حالات میں گندم کی فصل کاروبار کی غرض سے خرید کر سٹور کی جا تی ہے تاکہ بعد میں عدم دستیابی کے وقت گورنمنٹ کے مقرر کردہ اضافی ریٹ پر فروخت کی جائے۔ کیا یہ ذخیرہ اندوزی کہلائے گی؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

تجارت کی بنیاد ہی یہ ہے کہ ایک چیز موسم میں کثرت سے ملتی ہے ، تو اسے ایک مخصوص ریٹ پر خرید کر رکھ لیا جاتا ہےاور جب ریٹ زیادہ ہوتا ہے، تو اسے فروخت کر دیتے ہیں۔ اس طرح اسٹاک کرنا ذخیرہ اندوزی کے ضمن میں نہیں آئے گا۔
ذخیرہ اندوزی اس وقت بنے گی جب لوگ گندم کے ضرورت مند ہوں، اور یہ اسے اس نیت سے فروخت نہ کرے کہ مزید مہنگی ہوگی تو فروخت کروں گا۔ جیسا کہ ڈیلر حضرات اجناس کو بڑے پیمانے پر خرید کر ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں، تاکہ بازار میں قلت پیدا ہو (جیسا کہ اوپر سوال میں ’عدم دستیابی‘ کے الفاظ سے اس طرف اشارہ ہے) تو یہ قطعا جائز نہیں۔ یہی وہ ذخیرہ اندوزی ہے، جو اسلام میں منع ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے:

مَنِ احْتَكَرَ فَهُوَ خَاطِئٌ [مسلم:1605]

’جس نے ذخیرہ اندوزی کی وہ گناہ گار ہے‘۔
لہذا بنیادی ضروریاتِ زندگی سے متعلق اشیاء کو روکنا، ذخیرہ اندوزی کرنا، جبکہ لوگ ان چیزوں کو ترس رہے ہوں، یہ قطعی طور پر ممنوع ہے۔ ہاں ایسی چیزیں جن کا انسان کی موت و حیات یا بنیادی ضروریات سے تعلق نہیں، اور انہیں ذخیرہ کرنے سے مقصود بازار میں قلت پیدا کرنا بھی نہیں، تو ایسی چیزیں خرید کر رکھی جاسکتی ہیں۔

واللہ اعلم۔ وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ