سوال
ہمارے بعض علمائے کرام اللہ تعالیٰ کے لیے جمع کا صیغہ استعمال کرتے ہیں جیسا کہ ’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں‘ لیکن کچھ احباب اس سے منع کرتے ہیں، اور کہتے ہیں ادب یہ ہے کہ توحید کو مدِ نظر رکھتے ہوئے’اللہ تعالی کہتا ہے‘ کہا جائے۔ ایک صاحب نے دلیل بھی دی کہ قرآن مجید میں اللہ کے لیے جمع کا صیغہ استعمال ہواہے’’ انا نحن نزلنا الذکر‘‘ تو اس کے جواب میں کہا گیا کہ ایسے تو اللہ تعالی نے مخلوق کی قسمیں بھی اٹھائی ہیں جیسے ’’والتین‘‘ تو پھر تو مخلوق کی قسم بھی اٹھا سکتےہیں ؟ اس حوالے سے ہماری رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
یہ ہمارے اس دور کی ایجاد ہے، کہ اللہ تعالیٰ کے لیے جمع کا صیغہ استعمال نہیں کرنا چاہیے بلکہ واحد کا صیغہ استعمال کرنا چاہیے۔
اپنےباپ دادا کا نام لیتے وقت ہم ادبا جمع کا صیغہ استعمال کرتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ کے لیے جمع کا صیغہ استعمال کرنے میں کیا قباحت ہے؟
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کے لیے جمع کے صیغے کئی ایک مقامات پر بیان ہوئے ہیں، جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
“وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ ۖ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ”. [ق:16]
’ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں جو خیالات اٹھتے ہیں ان سے ہم واقف ہیں اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیاده اس سے قریب ہیں‘۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نےخوداپنے لیے جمع کا صیغہ تین بار استعمال کیا ہے اور ہمیں ادب سکھایا ہے۔
اسی طرح ایک اور آیت میں فرمانِ الٰہی ہے:
“إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ”. [الحجر:9]
’ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے، اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں‘۔
اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے چار مرتبہ جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے۔
باقی رہا مسئلہ کہ اللہ نے قرآنِ کریم میں مخلوقات کی قسمیں اٹھائی ہیں تو پھر ہم بھی اٹھا سکتے ہیں؟ تو اس کے جواب میں عرض ہے کہ ہم غیراللہ (مخلوق )کی قسم نہیں اٹھا سکتے کیونکہ ہمیں اس سے منع کردیا گیا ہے۔
جیساکہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، تو وہ سواروں کی ایک جماعت کے ساتھ چل رہے تھے، اور اپنے باپ کی قسم کھا رہے تھے۔تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“أَلَا إِنَّ اللَّهَ يَنْهَاكُمْ أَنْ تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ، مَنْ كَانَ حَالِفًا فَلْيَحْلِفْ بِاللَّهِ، أَوْ لِيَصْمُتْ”. [صحیح البخاری:6646]
’خبردار اللہ تعالیٰ نے تمہیں باپ دادوں کی قسم کھانے سے منع کیا ہے، جسے قسم کھانی ہے، وہ محض اللہ ہی کی کھائے ورنہ چپ رہے‘۔
اسی طرح ایک اور مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“لَا تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ، وَلَا بِأُمَّهَاتِكُمْ، وَلَا بِالْأَنْدَادِ، وَلَا تَحْلِفُوا إِلَّا بِاللَّهِ، وَلَا تَحْلِفُوا بِاللَّهِ إِلَّا وَأَنْتُمْ صَادِقُون”. [سنن ابی داؤد:3248]
’کہ تم اپنے باپ دادا ،ماؤں، اور وہ لوگ جنہیں لوگ اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں قسم نہ اٹھانا اور تم صرف اللہ کی قسم کھانا، اور اللہ کی قسم بھی اس وقت جب تم سچے ہو‘۔
ان احادیث میں واضح طور پر غیر اللہ کی قسم اٹھانے سے منع کیا گیا ہے۔
اس لیے اللہ تعالیٰ جس کی چاہے قسم اٹھائے اسے کوئی سوال نہیں کرسکتا لیکن ہمیں اجازت نہیں ہے، کہ ہم غیر اللہ کی قسم اٹھائیں۔
جیساکہ قرآنِ مجید میں ارشادِ ربانی ہے:
“لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ”. [الانبیاء:23]
’وه اپنے کاموں کے لیے (کسی کےآگے) جواب ده نہیں اور سب (اس کےآگے) جواب ده ہیں‘۔
یعنی غیر اللہ کی قسم اٹھانے سے تو منع کیا گیا ہے کیا اللہ کے لیے جمع کا صیغہ استعمال کرنے کی بھی ممانعت ہے؟
لہذا یہ قیاس مع الفارق ہے۔ اس لیے اللہ رب العالمین کے لیے بطور تعظیم جمع کا صیغہ استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، اور ادب کا یہ انداز توحیدِ الہی کے قطعا منافی نہیں ہے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ