تحفظ عقیدہ ختم نبوت
( مجاہدتحریک ِختم نبوت حضرت باباجی عبداللہ گورداسپوری ؒ اور سنتِ یوسفی ؑ )
تحریک ِ تحفظ ختم نبوت میں دیگر علمائے حق کی طرح حضرت بابا جی عبداللہ گورداسپوری ؒ ؒ کا کردار مثالی رہا اور اس پاداش میں کئی مرتبہ ریاستی جبرو استبداد نے آپ کو پس دیوار زنداں کر دیا۔ لیکن یہ زنداں کی آہنی سلا خیں آپ کے پائے استقامت میں ذرہ برابر بھی لغزش پیدا نہ کر سکیں اور آپ پوری مستعدی سے حضرت محمد رسول ﷺکی نبوت کے چوروں اور ڈاکوؤں سے برسر پیکار رہے بالآ خر حکومت ِ وقت نے اس عظیم تحریک کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور قادیانیوں کو کافر قرار دے کر اُن کی تبلیغی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی لیکن قادیانیوں نے خفیہ طور پر اپنی سرگرمیاں اور مہم جاری رکھی تو حضرت بابا جیؒ نے بھی ہر فورم پر قادیانیوں کی ان خفیہ سرگرمیوں کا محاسبہ کیا اورعوام الناس کو ان کی سازشوں سے آگاہ کیا اور اس ظلی و بروزی جماعت کے عزائم طشت ازبام کیئے۔
آپ ؒ کا ایک خط بنام ابو فیصل محمد سلیم ؒ ہفت روزہ لاعتصام میں شائع ہوا تھااس میں لکھتے ہیں کہ
عزیزم میرے نام محمد عبداللہ کا جزو گورداسپوری یعنی میں ضلع گورداسپور کا با شندہ ہوں جس میں مرزائیت کا مرکز قادیان بھی تھا جو ضلع گورداسپور کی تحصیل بٹالہ سے آٹھ میل مشرق کی جانب تھا چونکہ مرزائیت انگریز کا خود کاشتہ پودا تھا اس لئے دامے،درمے اور ہر جائز و ناجائز طریقے سے حکومت نے اس پودے کی سرپرستی کی۔گورداسپور میں بھی مرزائیت خوب پھیلی ہمارے ضلع میں حنفی وہابی کا کوئی اختلاف نہیں تھا بلکہ مرزائی اور مسلمان کا اختلاف تھامرزائیت کے خلاف تمام جماعتوں کی قیادت 1891ء سے ہی اہل حدیث اکابرین نے کی لیکن مجھے اپنا تذکرہ کرنا ہے اس لئے گزارش کروں کہ مجھے اپنی تبلیغی زندگی کا آغاز ہی رد مرزائیت سے کرنا پڑا۔ 1947ء میں تک ضلع کے جملہ مکاتب فکر کے علمائے کرام سے مل کر مجھے کام کرنا پڑا۔ہمارے شہر بٹالہ سے چھ میل کے فاصلے پر ایک بڑا گاؤں دیال گڑھ تھا بریلوی مکتبہ فکر کے معروف عالم مولانا سردار محمد صاحب جو بریلی کے جامعہ رضویہ کے شیخ الحدیث تھے وہ دیال گڑھ کے رہائشی تھے1939ء میں دیال گڑھ کے قریبی گاؤں (ہر سیاں) کے راجپوتوں میں سے چند لوگوں کے سوا سب مرزائی تھے اس گاؤں کے مسلمانوں نے مولانا سردار محمد صاحب سے آکر درخواست کی کہ ہمارے گاؤں میں مرزائیوں کو جواب دیں وہ ہمیں بہت تنگ کرتے ہیں چنانچہ مولانا سردار محمد صاحب نے سانگلہ ہل سے معروف بریلوی عالم مولوی عنایت اللہ کو جو کہ امرتسر میں خطیب تھے اور مولوی محمد عمر اچھروی جو اس دور میں شیخوپورہ کی کسی مسجد میں خطیب تھے اور مجھے (عبداللہ گورداسپوری) کو ہرسیاں کے جلسہ میں شرکت کی دعوت دی۔ ہم وہاں گئے اور مرزائیت سے کے خلاف ڈٹ کر تقریریں ہوئیں میں ابھی طالب علم تھا میں نے مرزائی کتب سے میں سے حوالے پیش کئے مرزائیوں کو طیش آگیا اور انہوں نے اسٹیج پر حملہ کر دیا علماء کو پارا پیٹا اور زخمی کر دیا لہذا بڑی مشکل سے ہم وہاں سے نکلے اور انہوں نے دور تک ہمارا پیچھا کیا تین دن کے بعد پولیس نے ہمارے خلاف پرچہ درج کر کے ہمیں گرفتار کر لیا ایک ہفتے کے بعد گاؤں کے لوگوں نے ہماری ضمانتیں کرائیں ڈیڑھ سال مقدمہ چلا یہ ختم نبوت کے سلسلہ میں میری پہلی گرفتاری تھی اس گرفتاری کے بعد خوف کی کیفیت ختم ہو گئی پاکستان بنتے ہی قادیانی ریشہ دوانیاں پھرشروع ہو گئیں
آپ ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ تحریک ِ ختم نبوت 1953ء کو بوریوالہ سے جو پہلا قافلہ کراچی گیا اُس قافلے کی قیادت میں نے خود کی اور راستے میں کئی قسم کی تکلیفوں بھوک، پیاس اور کئی رکاوٹوں کو عبور کرکے بالآ خر ہم کراچی پہنچنے میں کامیاب ہو گئے او ر اس عظیم تحریک میں بھر پور اور بڑ ھ چڑھ کر حصہ لیا اور پورے کراچی شہر کی شاہراہوں پر پرُجوش اور پر مغزِ تقار یر کیں اور عوام الناس کے سامنے قادیانیوں کی حقیقت اور اصلیت کو آشکارا کیا بالآ خر ہمیں کراچی میں گرفتار کر لیا گیااور ایک مہینے تک کراچی کی مختلف جیلوں میں ہمیں گھسیٹاگیا پھر جب ہم رہا ہو کر واپس آئے تو اُس وقت تک پنجاب میں مارشل لا ء لگ چکا تھا اور کراچی جانیوالے قافلوں کو روک دیا جاتا پھر بھی ہم نے بورے والا سے اس قدر قافلے روانہ کیئے کہ جب ان کو گرفتار کیا تو تمام جیلیں بھر گئیں پھر شہری تھانوں کی حوالاتوں میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کو دیہات کے تھانوں کی حوالاتوں میں رکھا گیا پھرجب وہ تھانے اور حوالاتیں بھی بھر گئیں تو قافلوں کو گرفتار کرکے رات گئے شہر سے دور دراز مقامات ہیڈ سلیمانکی، پاکپتن روڈ سے آگے پچاس ساٹھ کلومیٹر دوردریا کے ویران علاقوں میں جنگلوں، ٹبوں اور ٹیلوں میں لے جا کر چھوڑ دیا جاتا لیکن قربان جائیے ان ختم نبوت کے دیوانوں اورپروانوں پر جو کہ رات بھر پیدل چل کر اور کئی قسم کی تکلیفیں اٹھا کر صبح دم بورے والا شہر واپس آجاتے تو اگلے دِن پھر اُن کو گرفتار کرکے شہر کے دوسری جانب دور دراز کے علاقوں میں چھوڑ دیاجاتا ٹرانسپورٹر حضرات نے اس وقت بڑا تعاون کیا۔ جہاں لوگوں کو جنگلوں میں دیکھتے پہلے پانی پلاتے پھر کھانا وغیرہ کھلاتے بعد ازاں اپنے ساتھ سوار کرکے واپس بوریوالا شہرلے آتے آخر کار ایک ماہ کی دوڑ، دھوپ کے بعد مجلس ِ عمل کو یہ تحریک ختم کرنا پڑی لیکن بعض مشہورو معروف علماء کرام کو گرفتار کرکے ایک ایک سال کیلئے جیل میں بند کر دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ مجاہدین ختم نبوت کی قربانیوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے آمین یا رب العالمین۔
مزید فرماتے ہیں کہ پھر 1955ء میں نے خانیوال میں مرزائیت کے خلا ف ایک بڑی پرُجوش تقریرکی تو حکومت نے مجھے گرفتار کر لیا اور پھر تین 3دن مجھے خانیوال حوالات میں رکھنے کے بعد ملتا ن جیل بھیج دیا جب خانیوال سے پولیس مجھے ملتان لیکر گئی تو ساتھ ایک حوالدار اور دوسپاہی تھے انہو ں نے مجھے ملتان چھاؤنی کے اسٹیشن پر لے جا کر ڈسٹرکٹ جیل ملتان ٹیلی فون کر دیا اور جیل والوں کو کہا کہ اپنی گاڑی لا کر اپنے ملزم مہمان کو لے جاؤ پولیس والے جو کہ بڑے پکے مسلمان لیکن قانون کے تحت وہ مجھے گرفتار کرنے میں مجبور تھے انہو ں نے ملتان چھاؤنی کے ا سٹیشن پر مجھے ایک کپ چائے پلایا اور دو2پان بھی لے کر دیئے میں نے ایک پان منہ میں ڈال کر کھانا شروع کر دیا اور ایک جیب میں رکھ لیا اُس کے کچھ دیر بعد جیل کی گاڑی آگئی وہ مجھے ڈسٹرکٹ جیل ملتان لے گئی وہاں جا کر انہوں نے جیل کا دروازہ کھولااور گاڑی اندر داخل کر دی پھر اندر سے جیل کا دروازہ بند کر نے کے بعد مجھے گاڑی سے اُتارا اور میری تلاشی لینی شروع کر دی لیکن سوائے ایک پان کے جو میں نے اُس وقت جیب میں ڈالا تھا، انھیں کچھ نہ ملا آخر انہو ں نے وہ پان بھی نکال لیا اور کہا کہ قانون کے مطابق آپ پان اندر نہیں لے جا سکتے۔
میں نے جب ڈیوڑھی سے جیل کے اندر قدم رکھا تو میں نے وہ منہ والا پان بھی باہر پھینک دیا اور اپنے نفس کو مخاطب کرکے کہا۔ دیکھوجناب یہاں بڑی پابندی ہے اب آپ پان نہ مانگنا لیکن جب مجھے جیل میں وارڈن کے دفتر میں لے جایا گیا تو جیل کا سپرٹینڈنٹ اپنے دفتر میں بیٹھا مجھے شیشے کے اندر سے دیکھ رہا تھا جب میں دفتر میں پہنچا تو وارڈن نے بڑی خوش اخلاقی سے میرا استقبال کیا اور باعزت طریقے سے مجھے کرسی پر بٹھایا اور رجسٹر کھول کر میرے لیے کسی اچھی بیرک کی تلاش میں کھو گیا۔
( جیل میں خطبہ جمعتہ المبارک اور سورہ یوسف ؑ)
آپؒ فرماتے ہیں کہ میں ابھی جیل وارڈن کے دفتر میں اُس کے پاس ہی بیٹھا تھا تو اُس کے ٹیلی فون کی گھنٹی بجی اُس نے ٹیلی فون سنا اور ساتھ ہی کہا کہ مولوی صاحب یہ آپ کا ٹیلی فون ہے میں نے حیران ہو کر ٹیلی فون کان سے لگایا تو اُدھر سے آواز آئی۔ مولوی صاحب السلا م علیکم!
میں سپرٹینڈنٹ جیل بول رہا ہوں میں نے کہا حکم کریں کیا ارشاد ہے؟ وہ جمعتہ المبارک کا دن تھا سپرٹینڈنٹ کہنے لگا مولوی صاحب میں ارشاد نہیں گزارش کرتا ہوں کہ ہمارے ہاں جیل میں جو مولوی صاحب آتے ہیں جمعہ پڑھانے آج اُن کی درخواست آگئی ہے کہ میں بیمارہو ں آپ جمعہ کا انتظام کر لو آ پ چونکہ عالم ِ دین ہیں تو آج جمعتہ المبارک کاخطبہ آپ ارشاد فرما دیں مہربانی ہو گی۔
میں نے کہا جناب خطبے اور تقریروں کی وجہ سے ہی تو میں جیل میں آیا ہوں اس لیے میں خطبہ نہیں دے سکتا اور دوسری بات یہ ہے کہ میں گزشتہ تین، چار دِن سے حراست میں رہا ہوں جون کی سخت گرمی کا مہینہ ہے پسینے اور دھول کی وجہ سے میرے کپڑے اور جسم میلے ہو چکے ہیں اِن دو وجوہات کی بناء پر میں خطبہ جمعہ بیان نہیں کر سکتاتو سپرٹینڈنٹ جیل نے کہا آپ میری گذارش قبول فرمائیں میں آپ کے غسل کیلئے پانی اور نئے کپڑوں کا انتظام کر دیتا ہوں۔ تو میں نے کہا چلو جناب! اگر آپ مجبور کرتے ہیں تو میں جمعتہ المبارک کا خطبہ اور نماز پڑھا دیتا ہوں چند منٹ بعد جیل کا ایک ملازم آگیا اُس نے پانی کا ٹین، صابن اور دھنیا کا تیل شیشی میں لا کر رکھ دیا۔اور کہا کہ مولوی صاحب یہ آپ کے غسل کا انتظام ہے۔ (کیونکہ ملتان میں بہت گرمی ہوتی ہے اس لیے لوگ دھنیا کا تیل استعمال کرتے ہیں اور اکثر لوگ جب اپنے عزیز قیدیوں سے ملاقات کے لیے آتے تو وہ دھنیاکا تیل ساتھ لیکر آتے تھے)
دفتر کے ایک کونے میں ایک چھوٹا سا غسل خانہ تھا کلر ک نے اس ملازم سے کہا کہ یہ غسل کا سامان اُس غسل خانے میں رکھ دو۔ ابھی ہم بیٹھے ہی تھے میں کلر ک سے باتیں ہی کر رہا تھا۔کہ ایک اور ملازم نئے کپڑے لیکر آگیا کیمرک کا کرتہ بمعہ بنیان، ملتانی لاچہ اور 376میڈان انگلینڈ مَل مَل کی پگڑی۔ کہنے لگا۔ مولوی صاحب یہ آپ کے کپڑے ہیں۔ میں نے کہا کہ میز پر رکھ دو اُس کے چند منٹ بعد ہی ایک اور ملازم آگیا جس نے بڑی ساری ٹرے اٹھائی ہو ئی تھی جس میں چائے کی بھری ہوئی چائے دانی، کپ، انڈے، دو پراٹھے اور مکھن رکھا ہو اتھاوہ کہنے لگا مولوی صاحب یہ آپ کا ناشتہ آ گیا میں نے نہا دھوکر نئے کپڑے پہنے ناشتہ کر رہا تھا کہ جمعتہ المبارک کی آذان ہو گئی میں ناشتہ کر کے دفتر سے باہر نکلا تو ایک میدان (گرؤانڈ) میں قیدیوں، افسروں اور ملازموں کا اجتماع تھا صفیں بچھی ہوئی تھیں اور آگے امام و خطیب کیلئے قالین بچھا ہوا تھا قالین کے قریب منبر رکھا ہوا تھا
جب میں وہاں گیا تو افسرانِ جیل اور قیدیوں نے میرا استقبال کیا میں جمعتہ المبارک کی سنتیں پڑھ کر منبر رسول ﷺ پر کچھ دیر بیٹھا رہا اپنے ذہن میں خطبہ سوچ رہا تھا کہ اچانک مجھے یاد آیا میں نے کئی مرتبہ سیّد عطا اللہ شاہ بخاری ؒسے سنا تھا (کیونکہ وہ اکثر جیل میں ہوتے تھے) کہ سورۃ یوسف جیل میں پڑھنے کا مزہ آتا ہے تو میں نے بھی خطبۂ مسنونہ کے بعد ”السجن احب ایی مما ید عوننی الیہ“ پر مفصل پونے دو گھنٹے خطبہ دیا قیدی متاثر ہو کر دیوانہ وار اللہ اکبر کے نعر ے لگاتے رہے میں نے خطبہ بیان کرنے کے بعدنماز پڑھائی اور نماز سے فارغ ہو کر نمازیوں کی طرف منہ کرکے بیٹھا تو میرے پیچھے دو خوبصورت نوجوان بیٹھے تھے جنہوں نے پویس کا ایک بڑا افسر قتل کیا تھااُن نوجوانوں نے مجھ سے پوچھا کہ مولوی صاحب آپ کہاں کے رہنے والے ہیں؟ اور کس وجہ سے جیل میں آئے ہیں؟ میں نے کہا میں بورے والا کا رہنے والا ہوں اور وہاں کی جامع مسجد اہل حدیث کا خطیب ہو۔ میں نے خانیوال میں مرزائیت کی تردید میں تقریر کی تھی آج مجھے آپ لوگوں کے پاس ڈسٹرکٹ جیل ملتان میں پہنچا دیا ہے
اُن نوجوانوں کا کھانا گھر سے منظور ہوا تھا صبح کا ناشتہ، دوپہر کا کھانا، شام کا عصرانہ اور رات کا کھانا، بڑا ہی مرغن کھانا اُن کو آتا تھا وہ کہنے لگے کہ آپ کھانا ہمارے ساتھ کھا یا کریں ہم آپ کا کھانا بھی گھر سے منگوا لیا کریں گے میں نے بڑا انکار کیا لیکن اُن کا اصرار غالب آگیامیں نے کہا اگر آپ اصرار کرتے ہیں تو ٹھیک ہے میں آپ کے ساتھ کھا لیا کروں گا۔ پھروہ نوجوان میرے دانت دیکھ کر کہنے لگے معلوم ہوتا ہے کہ آپ پان بھی کھاتے ہیں میں نے کہا کہ کھایا تو کرتا تھا لیکن آج پولیس والوں نے تلاشی کے دوران میری جیب سے پان بھی نکال لیا اور حکم دیا کہ جیل کے قانون کے مطابق آپ پان اندر نہیں لے جا سکتے اب میں نے اپنے نفس کو سمجھا دیا ہے کہ دیکھو یہاں بہت پابندی ہے اس لیے آب پان نہ مانگنا۔ وہ کہنے لگے مانگا کیوں نہ کرے ہم دونوں بھائیوں کے روزانہ کھانے کے ساتھ گھر سے آٹھ پان آتے ہیں اب چار آپ کے بھی آیا کریں گے۔ میں نے کہا دیکھو انہوں نے میری جیب سے ایک پان نکالا تھا آگے چار پان آئے ہوئے ہیں (یہ اللہ کی شان اور قرآن کی برکت ہے)انہوں نے میری جیب سے پان تو نکال لیا لیکن میرے سینے سے قرآن وحدیث کا علم نہیں نکال سکے جس کی برکت سے آگے ایک کی بجائے چار مل رہے ہیں
میں 33دِن اُس جیل میں رہااس دوران میرے جماعتی ساتھی کثرت سے مجھے جیل میں ملنے آتے رہے میں اکثر جلسوں میں کھانا نہیں کھایا کرتا تھاکیونکہ وہاں کھانامرغن ہوتا تھا جسے زیادہ کھا کر کھڑا ہو کر تقریر نہیں ہوتی تھی اور تقریر کے بعد اکثر کھانا نہیں ہوتا تھا پھر میں اسی طرح تقریر کرکے بعض مرتبہ بھوکا ہی راتوں رات بس پر سوار ہو کر اپنے گھر بوریوالہ آجاتا تھاتاکہ صبح فجر کی نماز کے بعد درسِ قرآن قضاء نہ ہو جائے اور گھر آکر دودھ پی کے سوجایا کرتاتھاجس کی بنا ء پر میری صحت بھی بہت متاثر ہوئی تھی ان جیل کے ایام میں میری صحت بہت اچھی ہو گئی تھی کیونکہ کھانا کھا کر کبھی میں لیٹ جاتا اور کبھی پوری جیل میں سیر کرتا مجھ پر کوئی پابندی نہیں تھی میں جہاں چاہوں جا سکتا تھاخطبہ جمعتہ المبارک کی وجہ سے جیل کے تمام افسر بلکہ جیل کا ہسپتال جو کہ جیل کے اندر ہی واقع تھا وہاں کا ڈاکٹر بھی میرا بڑا احترام کیا کرتا اور مجھے اکثر کہا کرتا تھا کہ مولوی صاحب کبھی آپ یہاں آکر آرام کر لیا کریں اور میں وہاں بھی چلا جایا کرتاتھا الغرض! جیل میں مجھے کوئی پریشانی نہیں تھی ہر شخص عزت کی نگاہ سے مجھے دیکھتا تھا اور میں آزادی سے گھومتا پھرتا رہتا تھا جس کی وجہ سے میری صحت کافی بہتر ہو چکی تھی
(جیل سے رہائی)
مجا ہد ِ ختم ِ نبوت حضرت بابا جی گورداسپوری ؒفرماتے ہیں کہ اس طرح جیل میں میرا وقت گزرتا رہا آخر کار مولانا سیّد محمد داؤد غزنویؒ صدر مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان نے مجھے کہا کہ آپ جماعت کے ذی وقار عالم ِ دین ہیں اور آپ کی ضمانت نہ کروانا جماعت کی توہین ہے انہوں نے میا ں محمود علی قصوری مرحومؒ(ایڈوؤکیٹ ہائی کورٹ لاہور) کے ذریعے چیف جسٹس ہائی کورٹ کے گھر جا کر میری ضمانت کروائی اگلے دِن صبح جیل میں میرا ضمانت نامہ پہنچ گیا لیکن یہاں بھی ایک عجیب واقعہ ہوا تھا ہوا کچھ یوں کہ جو ضمانت والے قیدی ہوتے تھے اُن کو صبح 9یا 10 بجے کے قریب سپرٹینڈنٹ جیل کے سامنے پیش کرنے کے بعد اُن کی رہائی کی منظوری ملتی پھر اُن کو رہا کر دیا جاتامجھے بھی صبح 10بجے سپرٹینڈنٹ کے پاس بھیجاگیا تو سپرٹینڈنٹ جیل نے باقی ضمانت والے قیدیوں کو جانے دیا اور مجھے اپنے پاس دفتر میں ہی بٹھائے رکھا ڈپٹی کمشنر ملتان کو سی۔ آئی۔ڈی کے افسروں کے ذریعے اطلاع ملی۔ کہ ہزاروں کی تعدادمیں لوگ مولوی عبد اللہ کا استقبال کرنے آئیں گے ملتان چونکہ مدینۃ الاحرارہے اس لیے یہ لوگ کثیر تعداد میں جلوس کی شکل میں مولوی عبد اللہ کو جیل سے لانا چاہتے ہیں یہ بات تھی بھی سچ کیونکہ میرے جماعتی ساتھیوں نے مجھے جلوس کی شکل میں جیل سے لانے کا پروگرام بنا رکھا تھا۔
ڈپٹی کمشنر نے سپرٹینڈنٹ جیل کو ٹیلی فون کر دیا کہ مولوی عبد اللہ کو دِن میں جیل سے نہ نکالا جائے رات کو نکالا جائے تاکہ شرکاء جلوس شہر میں کوئی ہنگامہ برپانہ کر دے اور غالب امکان ہے کہ جلوس مرزائیو ں کی املا ک اور سیشن جج ملتان جو کہ مرزائی تھا اُس کے گھر پر حملہ نہ کر دے اس لیے امن ِ عامہ کی خاطر مولوی عبد اللہ کو دن کی بجائے رات کے وقت جیل سے رہا کیاجائے سپرٹینڈنٹ جیل نے حکم کی تعمیل کی اور مجھے اپنے پاس دفتر میں ہی بٹھائے رکھا دوپہر کا کھانا اور رات کا کھانا مجھے اپنے پاس ہی دیا میرے جماعتی ساتھی اور مجلس احرار کے کارکنان کثیر تعداد میں جیل کے گیٹ پر پہنچ چکے تھے اور میرے انتظار میں تھے کافی دیر انتظار کے بعد انہوں نے جیل حکام سے میری رہائی کے بارے میں پوچھا تو جیل حکام نے انہیں بتایا کہ مولانا عبداللہ کو آج رہا نہیں کیا جائے گا ابھی کچھ قانونی تقاضے پورے کرنے باقی ہیں البتہ کل ان شا ء اللہ انہیں رہا کر دیا جائے گا اُن کی یہ بات سن کر میرے استقبال کے لئے آئے ہوئے لوگ بڑے مایوس ہوئے اور واپس چلے گئے جب جیل کے باہر میرے استقبال کرنے والوں میں سے کوئی نہ رہا تو رات کو 10بجے وہ مجھے ساتھ لے کر خود میرے ساتھ چل کر جیل کے دروازے تک آیا دروازہ کھلوا کر مجھے سلام کیا اور صبر و استقامت کی بنا ء پر مجھے مبارک باد دی مجھے باہر بھیج دیا اور خود اندرچلا گیا۔ جب میں باہر آیا تو کوئی دو تین منٹ میں تردّد میں رہا کیونکہ رات کا وقت تھا اور روشنی بھی نہیں تھی یہ بھی معلوم نہیں تھاکہ کدھر سے رستہ شہر کو جاتا ہے ابھی انہیں سوچوں میں گم تھا کہ میں نے دیکھا کہ قریب ہی ایک درخت تھا اور اُس کے سائے میں دو آدمی بیٹھے تھے مجھے پتہ نہیں کہ وہ انسان تھے یا فرشتے۔
کیونکہ میں تحریک ختم نبوت کامجاہد تھا۔ خاتم النبین سرورِ کائنات جناب محمد ﷺ اور آپؐ کے جانثار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین کی مدد کیلئے بھی کئی موقعوں پر آسمان سے فرشتے نازل ہوئے جیسا کہ غزوہ بدر وغیرہ میں۔ وہ دو آدمی جو درخت کے سائے میں بیٹھے تھے اُٹھ کر فوراً میری جانب آئے اور مجھے مبارک باددی ایک نے مٹھائی کا ڈبہ پیش کیا کہ یہ آپ کی دعوت کیلئے ہے یہ کھائیں لیکن جیل سے نکلتے وقت قیدی اتنا خوش ہوتا ہے کہ اُسے کھانے پینے کی چند اں ضرورت نہیں ہوتی اُس کے لیے آزادی ہی سب سے بڑی چیز ہوتی ہے لیکن اُس کے پرُ زور اصرار پر میں نے برفی کا ایک چھوٹا ساٹکڑالے لیا اور دوسرے آدمی نے جیب سے کچھ پیسے نکالے جو کہ سکّوں کی صورت میں تھے۔ اٹھّنیاں، چونّیاں وغیرہ مُٹھ بھر کے۔ اُس نے کہا مولوی صاحب اب آپ نے کدھر جانا ہے؟ میں نے کہا بوریوالہ اُس نے کہا یہ کرایہ لے لیں میں نے کہا مجھے کرائے کی ضرورت نہیں ہے اب چونکہ مجھے سٹرک نظر آگئی ہے بذریعہ سٹرک میں چلا جاؤں گا اور راستے میں جہاں کہیں مجھے مسجد ملی وہیں رات قیام کر لوں گا اور صبح جب اُن کو خبر ہو گی کہ میں ختم نبوت کا مجاہد جیل سے رہا ہو کر آیا ہوں تو وہ مجھے سپیشل گاڑی پہ سوار کروا کے بوریوالا بجھوا دیں گے۔
اُس نے بہت تقاضہ کیا بالآ خر میں نے اُس سے ایک چوانی پکڑ لی اور جیب میں ڈال لی اُن کا شکریہ اداء کرنے کے بعد سلام کیا اور برفی کھاتے ہوئے چل دیا ابھی چند قدم ہی چلا تھا۔ کہ ایک تانگا آ گیا میں چونکہ سفید سوٹ زیب تن کیئے ہوئے تھا اُس نے تانگا لا کر میرے قریب کھڑا کر دیا اور کہنے لگاچوہدری صاحب (اُن دِنوں عام لوگ بھی داڑھیا رں رکھتے تھے۔ اُس وقت یہ داڑھی صر ف مولوی کے لیے خاص نہیں تھی۔) کہاں جانا ہے؟ میں نے ملتان چھاؤنی کے قریب ایک دوست کی کوٹھی کا نام لیا۔ اُس نے کہا بیٹھو مگر ایک روپیہ لوں گا میں نے کہا میرے پاس روپیہ نہیں ہے صرف ایک چوانی ہے اُس نے حیرانگی سے میری طرف دیکھا اور کہا کہ جناب آپ اتنے سفید پوش آدمی ہیں پھر بھی آپ کے پاس صرف ایک چوانی ہی کیوں؟ میں نے کہا بھائی میں جیل سے رہا ہو کر آرہا ہوں اُس نے کہا آپ جیل کیوں گئے تھے؟ میں نے کہا میں نے مرزائیوں کے خلاف ایک تقریر کی تھی اُس وجہ سے گرفتار ہو گیا آج اور ابھی رہا ہو کر آرہا ہوں۔
اُس نے کہا اچھا جناب آپ عالم ِ دین ہیں بیٹھیں میں بھی اللہ کے دین کی خاطر آپ کی کچھ خدمت کرتا ہوں میں تانگے پر سوار ہو گیا اور وہ مجھے پانچ میل کے فاصلے پر اُس کو ٹھی پر لے گیاجو کہ چھاؤنی اسٹیشن کے قریب تھی رات کوئی11بجے کے بعد کا وقت ہو گا جب ہمارا تانگا کوٹھی کے اندر داخل ہوا۔ توا نہوں نے دیکھتے ہی مجھے تانگے سے اٹھا کر اُتار لیا اور ایک دوست نے فوری طور پر تانگے والے کو جیب سے ایک روپیہ نکال کر دیا تانگے والے نے پیسے لینے سے انکار کر دیا۔اور کہا جناب ہمیں بھی مولوی صاحب کی کوئی خدمت کرنے دیں۔ انہو ں نے کہا تم اتنی دور سے ان کو لے کر آیا ہے یہ ہی تیری خدمت ہے ویسے بھی جہاں سے تم ان کو لے کر آ رہے ہو یہ وہاں قیدی تھے۔ یہاں تو یہ ہمارے ”بادشاہ“ ہیں۔اس طرح کے کئی مقدمات قائم ہوتے رہے کئی کئی سال تاریخیں بھگتتے رہے طر ح طرح کی مصبیتں، تکلیفیں اور مالی و جانی نقصان برادشت کرنے پڑتے میرے بورے والا کے جماعتی احباب میرے کیسوں کی تاریخ پرمیرے ساتھ عدالتوں میں دھکے کھاتے رہے مولوی محمد ایوب میرے بڑے جی دار قسم کے دوست تھے جب بھی میرے ساتھ تاریخ پر جاتے وہاں عدالتی اہل کاروں یا پولیس سے کسی نہ کسی وجہ سے جھگڑ پڑتے اور ہم بڑی مشکل سے معاملہ رفع دفع کرواتے اس کے بعد پونے دو سال وہ کیس چلتا رہا۔ آخر ایس۔ ڈی۔ ایم خانیوال نے مجھے باعزت طور پر بَری کر دیا۔
بالآخر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے دین حق کی خدمت کی بدولت سرخروئی عطا فرمائی۔ اس مقدمہ کے تقریباً تمام اخراجات خانیوال کی جماعت اہل حدیث نے ادا کئے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے درجات بلند فرمائے (آمین)
از۔خادم خادمین ختم نبوت ﷺ