سوال

ایک بیوہ عورت ہے، اس کا ایک بیٹا ہے، جس کی عمر تقریبا تیرہ سال ہے، اس بچے میں بلوغت کی علامت (زیر ناف) بال تو آچکے ہیں لیکن ابھی اس میں شعور کی پختگی نہیں ہے، جبکہ دوسرا اس بیوہ عورت کا بھائی ہے، جو سمجھدار اور شادی شدہ ہے.. اب اس عورت کی شادی کے لیے دونوں میں سے ولی کس کو بنایا جائے گا؟ یعنی اس بیوہ عورت کا بیٹا اس کا ولی بنے گا یا پھر اس کا بھائی؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

عورت کے نکاح کے لیے ولی کا ہونا ضروری ہے۔ ارشادِ نبوی ہے:

’لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ‘. [ سنن ابوداود: 2085]

’ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا‘۔

اور اولیاء بالترتیب درج ذیل لوگ ہوسکتے ہیں:

عورت کا والد پھر دادا پھر بیٹا، پھر بھائی پھر چچا وغیرہ  عصبہ رشتہ دار۔ اقرب کی موجودگی میں ابعد کو ولی بنانا درست نہیں، مثلا والد کی موجودگی میں بیٹا، یا بھائی کی موجودگی میں چچا ولی نہیں بن سکتا۔ [الشرح الممتع لابن عثيمين:12/84]

البتہ ولی کے لیے مسلمان اور عاقل و بالغ ہونا شرط ہے، جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

“لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ مُرْشِدٍ”. (السنن الصغير للبيهقي:2376، وحسن إسنادَه ابن حجر فی الفتح (9/ 191)

’نکاح کے لیے ’ولی مرشد‘ کا ہونا ضروری ہے‘۔

یعنی ایسا ولی، جو عورت کے فائدہ  و نقصان میں تمیز کرسکتا ہو، اور کھوٹے کھرے کی پہچان رکھتا ہو۔ لہذا اگر ولی اقرب موجود ہو، لیکن عاقل و بالغ نہ ہو، تو پھر بھی ولایت ولی ابعد کی طرف منتقل ہوسکتی ہے۔

صورتِ مسؤلہ میں عورت کا بیٹا اگر بالغ و باشعور نہیں ہے تو اس کا بھائی بطور ولی نکاح کے فرائض سر انجام دے سکتا ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ