کسی بھی عربی کتاب میں بہت سارے ایسے الفاظ اور علمی اصطلاحات ہوتے ہیں جہاں تک بہت سارے قارئین کی رسائی نہیں ہوتی، خصوصًا علمائے متقدمین کی کتابوں میں ایسے بے شمار کلمات اور اصطلاحات ہوتے ہیں جن کا صحیح معنی ہمیں معلوم نہیں ہوتا۔ ان مشکل الفاظ کی معرفت اور تفہیم کے لئے ہمیں ڈکشنریوں کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔
اسی طرح جب ہم کوئی علمی مقالہ لکھتے ہیں تو بہت سارے الفاظ کے معانی بیان کرنے کے لئے ڈکشنریوں کا حوالہ دینا پڑتا ہے، لیکن منہجیت کے فقدان کی وجہ سے بسا اوقات بعض مقالےاہل علم کے مابین معیوب بلکہ مضحکہ خیز شمار کئے جاتے ہیں۔ بعض مقالہ نگارشروحاتِ حدیث یا کتبِ تفاسیر یا کتبِ فقہ وغیرہ سے ایسے مشکل الفاظ کا معنی بیان کرتے ہیں جو کہ علمی مقالوں میں ایک معیوب چیز مانی جاتی ہے، الا یہ کہ وہ معنی کتبِ معاجم یا کتبِ غریب میں مقالہ نگار کو کہیں نہ ملے تو ان ثانوی مصادر سے بھی مدد لے سکتا ہے۔ہاں اگر اصل مصادر میں اس کا معنی وضاحت کے ساتھ نہ ہو، اجمال کے ساتھ ہو تو پہلے مصادر اصلیہ سے استفادہ کرنے کے بعد مزید وضاحت کے لئے ان ثانوی مصادر کا حوالہ دے سکتا ہے۔
”ڈکشنری“ کے لئے عربی میں ”معجم“ یا ”قاموس“ کا لفظ مستعمل ہے۔ کسی معجم (ڈکشنری) کا انتخاب کرتے وقت یہ خیال رکھنا چاہئے کہ حتی الامکان وہ متقدم ہو۔ متقدم معاجم میں مطلوبہ معلومات موجود ہونے کے باوجود متأخر معاجم کی طرف رجوع کرنا مناسب نہیں۔ بلکہ بسا اوقات دیکھا جاتا ہے کہ متأخر معجم کے مصنف نے کوئی چیز اپنے متقدمین سے نقل کی ہے اور مقالہ نگار اصل مصدر کا حوالہ نہ دے کر متأخر معاجم کا حوالہ پیش کرتا ہے۔ عام طلبہ کے مابین اگرچہ یہ چل جاتا ہو لیکن علمی مقالوں میں یہ مناسب نہیں۔
اس لئے کسی معجم سے کسی مشکل کلمہ کا معنی نقل کرتے وقت یہ دھیان رکھنا چاہئے کہ یہ چیز انہوں نے اپنے کسی متقدم سے نقل کی ہے یا نہیں، کیونکہ اکثر متأخرین مصنفین نے اپنے سابقین کی کتابوں پر کام کیا ہے یا سابقین کی کتابیں ان کا اہم مصدر رہی ہیں۔
بطور مثال ملاحظہ فرمائیں:
(1) ابن فارس فرماتے ہیں کہ مقاییس اللغہ میں ان کا اعتماد علمائے سابقین کی ان پانچ کتابوں پر ہے: كتاب العين للخليل، إصلاح المنطق لابن السكيت، جمهرة اللغة لابن دريد، غريب الحديث اور الغريب المصنف لأبي عبيد۔ [مقاییس اللغہ: مقدمہ/504]
(2) امام صغانی کی ”العباب“ نے گویا سابقہ معاجم کو اپنے اندر سمیٹ لیا ہے، خصوصًا كتاب العين، جمهرة اللغة، الصحاح، تهذيب اللغة، اور مقاييس اللغة وغیرہ کو۔ [المعاجم اللغویہ لمحمد احمد ابی الفرج: ص28]
(3) ابن منظور نے لسان العرب میں پانچ کتابوں پر اعتماد کیا ہے، وہ ہیں: تهذيب اللغة للأزهري، المحكم لابن سيده، الصحاح للجوهري، حواشي ابن بري على الصحاح، والنهاية لابن الأثير۔ فرماتے ہیں: “میری اس کتاب سے نقل کرنے والا یہ سمجھے کہ گویا وہ انہیں پانچ اصولوں (کتابوں ) سے نقل کر رہا ہے”۔ [لسان العرب: 1/8]
(4) فیروز آبادی کی القاموس المحیط کے مراجع میں سے چند اہم مراجع یہ ہیں: العين للخليل، الجمهرة لابن دريد، الصحاح للجوهري، المحكم لابن سيده، تهذيب اللغة للأزهري، العباب للصغاني۔ [المعاجم اللغویہ لمحمد احمد ابی الفرج: ص29]
(5) فیروزآبادی کی القاموس المحیط پر تاج العروس جیسی ضخیم قاموس کی بنیاد ہے۔ زبیدی نے اس میں القاموس المحیط کی شرح کی ہے اور اس پر کافی استدراک کیا ہے۔
لہذا ان جیسی کتابوں سے کوئی چیز نقل کرتے وقت اصل مصادر کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور حتی الامکان اصل مصادر سے ہی اسے نقل کرنا چاہئے۔
کتب المعاجم سے استفادہ سے پہلے ان معاجم میں الفاظ کی ترتیب کا علم ہونا ضروری ہے۔ متأخرین علما کے یہاں حروف معجم (ا ، ب، ت، ث، ج، ح…) پر ترتیب دینا رائج ومعروف ہے لیکن متقدمین علماکے یہاں بعض کتابوں میں یہ ترتیب موجود نہیں ہے۔ بعض نے اسے مخارج الحروف اور مقلوبات الکلمہ پر مرتب کیا ہے تو بعض نے کلمہ کے آخری حرف پر اسے مرتب کیا ہے۔ اس لئے کسی بھی معجم سے استفادہ سے پہلے اس کی ترتیب کا علم ہونا ضروری ہے تاکہ مطلوبہ کلمہ تک بآسانی پہنچ سکے۔ ذیل میں بطور نمونہ چند مشہور ومعتبر معاجم کی ترتیب بیان کی جارہی ہے۔
مخارج الحروف اور مقلوبات الکلمہ پر مرتب بعض معاجم یہ ہیں:
(1) كتاب العين للخليل بن أحمد الفراهيدي (ت170هـ ، وقيل: 175هــ)
یہ پہلی ڈکشنری ہے جو ہم تک پہنچی ہے۔ اسے خلیل نے مخارج الحروف پر مرتب کیا ہے، حلق کے سب سے آخری حصے سے ادا ہونے والے حروف سے شروع کیا ہے اور ہونٹوں سے ادا ہونے والے حروف پر اسے ختم کیا ہے۔ اس لئے اس کی ترتیب اس طرح ہے: ع ح ھ خ غ ق ک ج ش ض ص س ز ط ت د ظ ذ ث ر ل ن ف ب م و ی ا۔
ان میں سے ہر حرف کو کتاب کا نام دیا ہے۔ مثلًا پہلے حرف کا نام کتاب العین ہے۔ اسی سے کتاب کا نام بھی کتاب العین سے مشہور ہے۔
کتاب میں وارد الفاظ کو انہوں نے الٹ پلٹ کرکے ایک لفظ سے متعدد الفاظ تیار کیے ہیں اور ان پر بحث کی ہے، جسے قلب کہا جاتا ہے۔ مثلًا لفظ “رب” کو لیں، اسے قلب (الٹ پلٹ) کر دیا جائے تو یہ “بر” بن جاتا ہے۔ لفظ “حبر” کو قلب کیا جائے تو یہ الفاظ بنتے ہیں: ربح، بحر، رحب، حرب، برح۔ وقس علی ہذا۔
اس سے بعض کلمات ایسے تیار ہو سکتے ہیں جن کا کوئی معنی نہیں ہے۔ اسی لئے بعض کلمات کے متعلق خلیل نے کہا ہے کہ عرب نے اسے استعمال نہیں کیا ہے، یہ ایک مہمل لفظ ہے۔ حالانکہ ان کے بعد آنے والے علما نے ان پر استدراک بھی کیا ہےاور بعض جن الفاظ کو خلیل نے مہمل قرار دیا تھا انھیں دلائل کی روشنی میں مستعمل قرار دیا ہے۔
اس طریقے پر علمائے مقتدمین میں سے اور بھی دوسرے علما نے کتابیں لکھی ہیں۔ مثلًا:
(2) البارع في اللغة لأبي علي القالي (ت356هـ)
کتاب العین سے قالی نے کافی استفادہ کیا ہے۔ اور ان پر کافی اضافہ بھی کیا ہے خصوصًا جن الفاظ کو خلیل نے مہمل کہا تھا ان میں سے بہت سارے کلمات کے معانی اور کلام عرب سے ان کے شواہد کو ذکر کیا ہے۔ حالانکہ ابو علی القالی پربھی اس حوالے سے ان کے شاگرد ابو بکر الزبیدی نے استدراک کیا ہے اور ”المستدرک من الزیادۃ فی کتاب البارع علی کتاب العین“ نامی کتاب لکھی ہے۔ کتاب البارع کا اکثر حصہ مفقود ہے، اور صرف ایک ٹکڑا مطبوع ہے۔
(3) تهذيب اللغة لأبي منصور الأزهري (ت370هــ)
یہ ایک ضخیم ڈکشنری ہے۔ اس کا مقدمہ بڑا اہم ہے۔ شرعی نصوص سے شواہد کا خوب اہتمام کیا ہے کیونکہ اس کے مؤلف نا صرف لغوی بلکہ معروف شافعی فقیہ بھی تھے۔ اکثر متأخرین لغویوں کا یہ ایک اہم مصدر رہا ہے۔ مثلًا مختار الصحاح، العباب اور لسان العرب وغیرہ کا۔
(4) المحكم والمحيط الأعظم لابن سيده الأندلسي (ت458هـ)
اس کا مقدمہ بڑا طویل ہے۔ اس میں بھی بہ کثرت شواہد کا استعمال کیا گیا ہے۔ صرفی ونحوی مسائل پر کافی بحث موجود ہے۔ اور یہ بعد کی ڈکشنریوں کا ایک اہم مصدر ہے۔
ڈکشنریوں میں الفاظ کی ترتیب کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ انہیں حروف معجم (ا ب ت ث ج ح ..الخ) پر مرتب کیا جائے۔ اس نہج پر بے شمار ڈکشنریوں کو مرتب کیا گیا ہے۔ بعض نمونے ملاحظہ فرمائیں:
(1) كتاب الجيم لأبي عمرو الشيباني (ت206هـ)
یہ بہت مختصر لیکن بہترین ڈکشنری ہے، مگر صرف نوادر لغت پر مشتمل ہے۔
(2) جمهرة اللغة لابن دريد (ت321هـ)
یہ حروف معجم پر مرتب ہے لیکن کتاب العین کی طرح مقلوبات الکلمہ کا اس میں استعمال ہے۔ اس کا اکثر حصہ ابن درید نے اپنے حافظہ سے املا کروایا ہے، اس لئے اس میں کچھ جگہوں پر انہیں وہم بھی ہوا ہے۔
(3) مقاييس اللغة لابن فارس (ت395هـ)
اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں ہر مادے کا اصل بیان کیا گیا ہے۔ ہر مادے کے مفردات کو بیان کرنے کے ساتھ ابن فارس ایک یا زائد ایسا مشترک معنی بیان کرتے ہیں جس میں اس کے تمام مفردات شامل ہوں۔ چھ جلدوں میں شیخ المحققین عبد السلام محمد ہارون کی تحقیق سے مطبوع ہے۔
(4) مجمل اللغة لابن فارس (395هـ)

مزید پڑھیں: عربی عبارتوں کے لئے بعض معتمد عربی ڈکشنریاں(2)
یہ کتاب مختصر ہے، مگر بہت ہی محرر انداز میں لکھی گئی ہے۔ غریب القرآن کی خاص رعایت کی ہے۔
دونوں کتابوں میں ابن فارس نے ترتیب میں ہر حرف میں اس کے بعد والے حرف سے ابتدا کی ہے، اور اسی ترتیب سے آگے بڑھے ہیں۔ مثلًا را میں اس کلمہ کو پہلےذکر کیا ہے جو را اور زا سے شروع ہوتا ہے، پھر جو را اور سین سے شروع ہوتا ہے، یہاں تک کہ را اور ذال کی باری آجائے، وقس علی ہذا۔
(5) أساس البلاغة للزمخشري (ت538هـ)
اس میں لفظ کے حقیقی معنی اور پھر اس کے مجازی استعمال کا ذکر ہے۔ اُدَبا کے لئے بہت مفید ہے ڈکشنریوں میں الفاظ کی ترتیب کا تیسرا طریقہ یہ ہے کہ کلمہ کے آخری حرف پر انہیں مرتب کیا جائے۔ مثلًا “کتب” کو حرف الباء میں رکھنا، حرف الکاف میں نہیں۔ اس ترتیب کا فائدہ یہ ہے کہ کلمہ کے پہلے حرف میں تصریفات اور قلب کی صورت میں تبدیلی کا ہمیشہ ڈر لاحق ہوتا ہے لیکن آخری حرف میں نہیں۔ اس نہج پر بھی بہت ساری ڈکشنریوں کو مرتب کیا گیا ہے۔ بعض نمونے ملاحظہ فرمائیں۔
(1) الصحاح للجوهري (ت393هـ قريبًا)
یہ ایک ضخیم ڈکشنری ہے جس میں چالیس ہزار لغوی مادے موجود ہیں۔ یہ عمدہ ڈکشنریوں میں سے ایک ہے۔ اس کتاب کو جو مقبولیت حاصل ہوئی دیگر کو کم ہی حاصل ہو سکی۔ اسی لئے علمائے کرام کی ایک بہت بڑی جماعت نے اس پر متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں جن کی تعداد سو سے زائد ہے۔ کسی نے تعلیق چڑھائی تو کسی نے اس پر تکملہ کا کام کیا، کسی نے استدراک کیا تو کسی نے مقارنہ، کسی نے نقد کیا تو کسی نے دفاع، کسی نے اختصار کیا تو کسی نے اسے منظومہ کی شکل دی۔ ان تمام خدمات کی تفصیلات جاننے کے لئے الصحاح پر استاد عباس محمود العقاد کا مقدمہ (ص157-212) پڑھیں جس میں انہوں نے ایک سو نو (109) کتابوں کا ذکر کیا ہے۔

فاروق عبد اللہ نراین پوری