(2) العباب الزاخر واللباب الفاخر للصغاني (ت650هــ)
اس کتاب کے مؤلف کا تعلق قدیم غیر منقسم ہندوستان سے ہے۔ صحیح بخاری کا ان کا نسخہ “نسخہ بغدادیہ” کے نام سے مشہور ہے جس سے حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں کافی استفادہ کیا ہے۔ ان کی سوانح حیات اور علمی خدمات پر خاکسار کا ایک مقالہ بعنوان: ”علامہ صغانی: متحدہ ہندوستان کا ایک راویِ صحیح بخاری“ فری لانسر میں شائع ہو چکا ہے۔ یہ ایک محدث اور فقیہ کے ساتھ بہت بڑے لغوی تھے۔ ان کی یہ کتاب بڑی اہمیت کی حامل ہے لیکن افسوس کہ غیر مکمل ہے۔ امام سیوطی اس کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: “أعظمُ كتابٍ أُلِّفَ في اللغة بعد عَصْرِ الصحاح كتابُ المُحْكَم والمحيط الأعظم لأبي الحسن علي بن سِيدَه الأندلسي الضَّرير ثم كتابُ العُباب للرضي الصَّغاني”۔ [المزہر فی علوم اللغہ وانواعہا: 1/76]
(زمانۂ ”الصحاح“ کے بعد لغت میں جو سب سے عظیم کتاب لکھی گئی وہ ابو الحسن علی بن سیدہ الاندلسی الضریر کی کتاب المحکم والمحیط الأعظم ہے ، پھر رضی صغانی کی کتاب العباب ہے۔)
(3) لسان العرب لابن منظور الأفريقي (ت711هــ)
یہ ان کے زمانے تک کی سب سے ضخیم ڈکشنریوں میں سے ایک تھی۔ اس میں اسی ہزار سے زائد لغوی مادے موجود ہیں۔ اس میں نصوص سے شواہد، کلمات پر ضبط، روایات کے مابین ترجیح جیسی سبھی خوبیاں موجود ہیں۔ بہت سارے علما نے اس کی علمی خدمت کی ہے۔
(4) القاموس المحيط للفيروزآبادي (ت817هـ)
یہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے استاد ہیں جن سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کافی استفادہ کیا ہے۔ یہ بھی ایک ضخیم ڈکشنری ہے جس میں ساٹھ ہزار لغوی مادے موجود ہیں۔ انہوں نے پہلے “اللامع المعلم العجاب الجامع بين المحكم والعباب” کے نام سے ایک ڈکشنری تصنیف کرنی شروع کی تھی۔ پانچ جلدوں کے بعد انہیں لگا کہ یہ بہت طویل ہو جائےگی اور سو جلدوں تک پہنچ جائےگی جس کا مراجعہ طلبہ کے لئے مشکل ہوگا، پس سابقہ ارادہ ترک کرکے اس سے مختصر یہ کتاب تصنیف کی جو کہ پھر بھی بہت ضخیم ہے۔

مزید پڑھیں: عربی عبارتوں کے لئے بعض معتمد عربی ڈکشنریاں(1)
یہ بہت ہی مفید ڈکشنری ہے۔ اسی لئے علمائے کرام کی ایک جماعت نے اس پر مستقل کتابیں تصنیف کی ہیں، جن میں سے سب سے مشہور زبیدی کی ”تاج العروس“ ہے۔
(5) تاج العروس من جواهر القاموس للزبيدي (ت1205هـ)
یہ القاموس للفیروزآبادی کی شرح ہے، اور اس پر کافی استدراک بھی کیا ہے۔ اس کے مؤلف اگرچہ متأخر الوفات ہیں لیکن ان کی یہ کتاب بہت ہی مفید اور ضخیم ہے، بلکہ یہ اب تک کی سب سے بڑی ڈکشنری ہے۔ اس میں ایک لاکھ بیس ہزار لغوی مادے موجود ہیں جنہیں مؤلف نے چودہ سال سے زائد مدت میں چھ سو مصادر سے جمع کیا ہے۔
اب تک جن معاجم کی بات کی گئی ان کا شمار “معاجم الالفاظ” میں ہوتا ہے۔ بہت سارے ایسے معاجم بھی ہیں جن کا تعلق معانی کے ساتھ ہے۔ یعنی ایک معنی اور موضوع سے متعلق الفاظ کو ایک جگہ جمع کردیا گیا ہے۔ چاہے ایک ہی موضوع پر مستقل کتاب میں ہو یا ایک کتاب میں کئی ایک موضوعات کو جمع کیا گیا ہو۔بطور نمونہ درج ذیل معاجم ملاحظہ فرمائیں:
(1) خلق الإنسان للأصمعي (ت216هـ)
(2) كتاب الإبل للأصمعي
(3) خلق الفرس لمحمد بن زياد الأعرابي (ت231هـ)
(4) كتاب الخيل لمعمر بن المثنى (ت210هـ)
اس کتاب کے مختصر تعارف پر خاکسار کا ایک مضمون فری لانسر میں شائع ہو چکا ہے۔
(5) كتاب الخيل للأصمعي
(6) كتاب الشاء للأصمعي
(7) كتاب الوحوش للأصمعي
( كتاب النخل لأبي حاتم السجستاني (ت255هـ)
(9) كتاب السلاح للأصمعي
(10) كتاب البئر لمحمد بن زياد الأعرابي (ت231هـ)
(11) كتاب الريح لابن خالويه (ت370هـ)
ان تمام کتب میں ایک ہی قسم کے معنی کو موضوع بحث بنایا گیا ہےاور اس کے متعلق الفاظ پر بحث کی گئی ہے۔ جب کہ بعض ایسی کتابیں بھی ہیں جن میں مختلف موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔ بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں:
(1) الغريب المصنف لأبي عبيد القاسم بن سلام (ت224هـ)
(2) كتاب الألفاظ لابن السكيت (ت244هـ)
(3) فقه اللغة وسر العربية للثعالبي (ت429هـ)
(4) المخصص لابن سيده (ت458هـ)
(5) تهذيب الألفاظ للخطيب التبريزي (ت502هـ)
مقالہ نگاروں اور مصنفین کو چاہیے کہ مشکل الفاظ کی شرح کے لئے ان مذکورہ معروف ومعتبر متقدم معاجم کی طرف رجوع کریں۔ ان معاجم میں مطلوبہ لفظ موجود ہونے کے باوجود معاصرین کی ڈکشنریوں کی طرف رجوع کرنا صحیح نہیں۔ مثلًا بعض باحثین مذکورہ متقدم ڈکشنریوں کی طرف رجوع نہ کرکے ان درج ذیل ڈکشنریوں کی طرف رجوع کرتے ہیں:

المعجم الكبير، المعجم الوسيط, المعجم الوجيز (انہیں مجمع اللغہ العربیہ مصر نے شائع کیا ہے)، معجم الفرائد للدكتور إبراهيم السامرائي، القاموس الجديد للجنة من اللغويين في تونس, المنجد للويس معلوف، البستان لعبد الله الميخائيل البستاني، الرائد لجبران مسعود, الشامل لمحمد سعيد إسبر وبلال جنيدي, المعجم العربي الحديث لاروس للدكتور خليل البحر وغیرہ۔

ان کا یہ عمل قابل تعریف نہیں۔
ہاں اگر متقدم ڈکشنریوں میں مطلوبہ معلومات نہ ملیں تو ان جدید ڈکشنریوں کی طرف رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
ان معاصر ڈکشنریوں میں سب سے معتمد ”المعجم الوسیط“ ہے۔ شیخ محمد عزیر شمس حفظہ اللہ اس کے متعلق فرماتے ہیں: “جدید ڈکشنریوں میں یہ سب سے زیادہ معتمد ہے۔ اسے ماہرین لغت کی ایک ٹیم نے ترتیب دیا ہے۔ اس لئے قابل اعتماد ہے۔ اس کا حال ”المنجد“ جیسا نہیں”۔
اب تک عام مشکل الفاظ کی بات چل رہی تھی۔ لیکن اگر ان کا تعلق احادیث نبویہ سے ہے تو ان کے لئے غریب الحدیث پر لکھی گئی کتابوں کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ مثلًا:
(1) غريب الحديث لأبي عبيد القاسم بن سلام (ت224هـ)
(2) غريب الحديث لابن قتيبة الدينوري (ت276هـ)
(3) غريب الحديث لإبراهيم بن إسحاق الحربي (ت285هـ)
(4) غريب الحديث للخطابي (ت388هـ)
(5) تفسير غريب ما في الصحيحين للحميدي (ت488هـ)
(6) الفائق في غريب الحديث للزمخشري (ت538هـ)
(7) مشارق الأنوار على صحاح الآثار للقاضي عياض (ت544هـ)
اس میں صحیحین اور موطا امام مالک کی حدیثوں کے غریب الفاظ پر ہی صرف بحث کی گئی ہے۔ اس میں اعلام، انساب اور جگہوں کا بھی ذکر ہے۔ مختلف الفاظ کی روایت میں روات کے اختلافات کا ذکر اور ان کے اوہام کا بھی بیان ہے۔ اس کی ترتیب حروف المعجم پر ہے ، لیکن ہمارے یہاں کے حروف معجم کی معروف ترتیب پر نہیں بلکہ مغاربہ کی ترتیب پر ہے، جو کہ اس طرح ہے: ا ب ت ث ج ح خ د ذ ر ز ط ظ ک ل م ن ص ض ع غ ف ق س ش ھ و ی ۔
اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ امام کتانی کے اس قول سے لگایا جا سکتا ہے: “وهو كتاب لو وزن بالجوهر أو كتب بالذهب كان قليلًا فيه”۔ [الرسالہ المستطرفہ: ص157]
(اگر اس کتاب کو جواہرات سے تولا جاتا یا سونے سے لکھا جاتا پھر بھی کم تھا۔)
( غريب الحديث لابن الجوزي (ت597هـ)
(9) النهاية في غريب الحديث والأثر لابن الأثير (ت606هـ)
اس موضوع کی یہ سب سے بہترین اورجامع کتاب ہے۔
(10) مجمع بحار الأنوار في غرائب التنزيل ولطائف الأخبار لمحمد بن طاهر الفتني الغجراتي (ت986هـ)
اس میں غریب القرآن اور غریب الحدیث دونوں ہیں۔ علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ کی تحفۃ الاحوذی کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کتاب ان کے اہم مصادر میں سے ہے۔ اس کتاب سےانھوں نے تحفہ الاحوذی میں کافی استفادہ کیا ہے۔
جہاں تک مشکل اور غیر معروف اصطلاحات کا معاملہ ہے تو اس کے لئے متعلقہ فن کی امہات کتب کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور اس کا معنی ومفہوم بیان کرنا چاہیے۔ نیز اصطلاحات پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان کی طرف بھی رجوع کرنا چاہیے۔ اگر ان اصطلاحات کا تعلق فقہ سے ہے تو درج ذیل کتابوں کی طرف رجوع کرنا مفید ہوگا:
♦️ حنفی مذہب کے لئے:
(1) طلبة الطلبة لنجم الدين النسفي (ت537هـ)
(2) المُغرِب في ترتيب المُعْرِب للمطرزي (ت610هـ)
(3) أنيس الفقهاء لقاسم القونوي (ت978هـ)
♦️ شافعی مذہب کے لئے:
(4) الزاهر في غريب ألفاظ الشافعي لأبي منصور الأزهري (ت370هـ)
شروع میں بیان کیا جا چکا ہے کہ یہ بہت بڑے لغوی ہونے کے ساتھ ساتھ علمائے شوافع کے بہت بڑے عالم تھے۔ان کی کتاب تہذیب اللغہ اور الزاہر اس کی بہترین دلیل ہے۔
(5) حلية الفقهاء لابن فارس (ت395هـ)
(6) تهذيب الأسماء واللغات للنووي (ت676هـ)
یہ بہت ہی مفید کتاب ہے۔ اس کا پہلا حصہ شخصیات کے تعارف پر اور دوسرا حصہ مشکل کلمات اور اصطلاحات پر مشتمل ہے۔ اسی کتاب کی وجہ سے امام نووی کو امام جرح وتعدیل بھی کہا جاتا ہے۔
(7) تحرير ألفاظ التنبيه للنووي
( النظم المستعذب في شرح غريب المهذب للركبي (ت633هـ)
(9) المصباح المنير في غريب الشرح الكبير للفيومي (ت770هـ)
مالکی مذہب کے لئے:
(10) شرح غريب ألفاظ المدونة للجبي (توفي في القرن الرابع أو الخامس)
(11) الحدود لابن عرفة المالكي (تت803هـ)
حنبلی مذہب کے لئے:
(12) المطلع على أبواب المقنع للبعلي (ت709هـ)
اور اگر ان مصطلحات کا تعلق شریعت کے دوسرے فنون مثلًا عقیدہ وغیرہ سے ہے تو ان کتابوں کی طرف رجوع کرنا مفید ہوگا:
(1) غریب الحدیث لابن قتیبہ کا مقدمہ
(2) الزينة في الكلمات الإسلامية العربية لأحمد بن حمدان الرازي (ت322هـ)
(3) الحدود الأنيقة والتعريفات الدقيقة لزكريا الأنصاري الشافعي (ت926هـ)
ساتھ ہی ان کتابوں کی طرف رجوع کرنا بھی مفید ہوگا جو کہ تعریفات اور مصطلحات کے پر ہی لکھی گئی ہیں، مثلًا:
(1) التعريفات للجرجاني (816هـ)
(2) التوقيف على مهمات التعاريف للمناوي (ت1031هـ)
(3) الكليات (معجم في الاصطلاحات والفروق اللغوية) لأبي البقاء الكفوي (ت1094هـ)
(4) كشاف اصطلاحات الفنون للتهانوي (ت1158هـ)
ہر خاص کلمہ یا اصطلاح کے لئے متخصص اور مناسب مصدر کی طرف رجوع کرنا اور اس کا حوالہ دینا علمی مقالوں میں جان پھونک دیتا ہے، اور یہ اس مقالے کی ایک بڑی خوبی مانی جاتی ہے۔ اور اس کی رعایت نہ کرنا اہل علم کے نزدیک خلل تصور کیا جاتا ہے، بلکہ معیوب مانا جاتا ہے اور ایسے مقالوں کو وہ خاص اہمیت نہیں دیتے۔ اس لئے ان امور کی طرف مقالہ نگاروں اور مصنفین کو خصوصی توجہ دینا چاہیے۔ اللہ ہمیں نفع بخش علم کی نشر واشاعت کی توفیق عطا فرمائے۔

فاروق عبد اللہ نراین پوری