سوال

ایک خاتون (ثمینہ صدیقی) کی 9 نومبر 2020ء کو وفات ہوئی ۔ ان کے ورثاء میں والدہ، 4 بیٹے اور 3 بیٹیاں ہیں۔ خاوند پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔

اس خاتون کی وفات کے بعد ان کی والدہ نے اسٹام پیپر پر لکھ کر دے دیا ہے کہ مجھے اپنی بیٹی کی وراثت میں سے کچھ بھی نہیں چاہیے۔

محترمہ (ثمینہ صدیقی) کے ترکے میں ایک مکان اور چھ دکانیں ہیں۔ بوقت وفات  اس مکان کا سودا ہورہا تھا اور ابھی مکمل ادائیگی نہیں ہوئی تھی کہ وفات ہوگئی۔ انہوں نے اس مکان کی رقم پوری کرنے کےلیے اپنے ایک بیٹے ،دو بیٹیوں، ایک داماد اور ایک رشتہ دار سے کچھ رقم ادھار لی تھی۔ محترمہ کی وفات کے بعد مکان کی ادائیگی کے سلسلہ میں خاتون کے بھائی سے بھی ان کی اولاد نے کچھ پیسے بطور قرض لیے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ اس مکان میں تین بیٹے اور ایک غیر شادی شدہ بیٹی رہائش پذیر ہے۔ ایک بیٹا تعلیم کےلیے دوسرے شہر میں مقیم ہے اور دو بیٹیاں شادی شدہ ہیں۔ساری دکانیں خاتون کی زندگی میں ہی کرائے پر دی گئی تھیں اور ان کی وفات سے جو کرایہ آتا تھا، اسی سے گھر چلتا تھا۔ ان کی وفات کے بعد بھی بچوں نے اسی صورت کو برقرار رکھا کہ جو کرایہ آرہا ہے، اسے گھر کے بجلی، گیس وغیرہ کے بل اور کھانے پینے میں استعمال کیا جارہا ہے۔

پراپرٹی ابھی تک تقسیم نہیں کی گئی کیونکہ بعض خیرخواہان نے مشورہ دیا تھا کہ پہلے قرض اتارا جائے، پھر پراپرٹی کو تقسیم کیا جائے۔

مندرجہ بالا صورتحال کے پیش نظر آپ سے فتویٰ درکار ہے کیونکہ مرحومہ  کے بعض پسماندگان یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ پراپرٹی کی تقسیم کیے بغیر اور قرض اتارے بغیر جو کرایہ آرہا ہے، اسے وراثت کے حصوں کے مطابق تقسیم کردیا جائے کیونکہ انہیں فی الوقت پیسوں کی ضرورت ہے۔پراپرٹی کی تقسیم اس لیے نہ کی جائے کہ بعض وارثان ابھی قانوناً بالغ نہیں ہوئے اور قرض اس لیے نہیں اتار رہے کہ اس کےلیے کسی کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ قرض اتارنے کےلیے کسی ایک دکان کو فروخت کرنا پڑے گا اور فروخت کےلیے بھی بعض افراد رضا مند نہیں ہیں۔ جبکہ قرض دینے والا وارث مطالبہ کررہا ہے کہ مجھے قرض کی رقم کی ضرورت ہے۔

آپ فرمائیے کہ مندرجہ بالا صورتحال میں صرف کرایہ تقسیم کیا جاسکتا ہے؟ یا پوری جائیداد کو ہی تقسیم کیا جائے گا؟ یہ بھی وضاحت فرما دیجیے کہ قرض اتارے بغیر اس طرح کرایہ یا جائیداد کو تقسیم کرنا جائز ہے؟ اور یہ بھی ارشاد فرمائیے کہ مرحومہ کی وفات سے اب تک جو دکانوں کا کرایہ گھر پر بغیر تقسیم کے خرچ کیا جارہا ہے، یہ درست ہے یا اس کا کیا کیا جائے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

سوال میں کئی ایک امور ہیں، جن سب کی وضاحت حسبِ ذیل ہے:

1۔  میت کی جائیداد میں سے سب سے پہلے جو اس نے قرض لیا تھا، اس کی ادائیگی کا بندوبست کیا جائے، اس کے لیے مکان یا دکان  جو بھی بیچنا پڑتا ہے، اسے بیچا جائے، کیونکہ  دکانوں کو  بیچنا نہ بیچنا اس کے فائدہ یا نقصان کا تعلق لواحقین اور ورثا کے دنیاوی  مصالح و منافع سے ہے، جبکہ قرض میت کے ذمے ایک شرعی حق ہے، جب تک اس کی ادائیگی نہیں کی جائے گی، میت کی خلاصی ممکن نہیں۔ دكان بیچنے پر اگر بعض ورثا راضی نہیں ہورہے، تو ان کے راضی ہونے نہ ہونے کی کوئی حیثیت نہیں ہے، کیونکہ میت کی جائیداد  میں ورثا کا حق بعد میں ہے، جبکہ قرض کی ادائیگی اس سے پہلے ہے، جیسا کہ تقسیمِ وراثت سے متعلق آیات میں یہ حکمِ الہی واضح طور پر موجود ہے۔ (سورۃ النساء: 11)

2۔  قرض کی ادائیگی کے بعد جس قدر جلدی ہوسکے، ان کی وراثت کو ورثا ء میں شرعی حصص کے مطابق تقسیم کیا جائے، کیونکہ جس قدر تاخیر کی جائے گی، معاملات سلجھنے کی بجائے الجھن کی طرف ہی جائیں گے۔

بعض ورثاء اگر نابالغ بھی ہیں، تو پھر بھی وراثت تقسیم کرنے میں کوئی حرج نہیں، وراثت تقسیم کرتے ہوئے، ان کے حصے انہیں دیے جائیں، تاکہ وہ جس کے ساتھ بھی رہیں، وہ بطور وکیل اور کفیل ان کی پرورش بھی کرے گا، اور ان کے مال کی حفاظت بھی کرے گا۔

3۔وراثت کی تقسیم اوپر ذکر کردہ ورثاء میں درج ذیل تفصیل کے مطابق ہوگی کہ ماں کا چھٹا حصہ اور باقی مال بیٹے اور بیٹیوں میں ’للذکر مثل حظ الانثیین‘ کے مطابق تقسیم ہو گا۔ کل مال کے 66 حصے کیے جائیں، اس میں سے گیارہ حصے والدہ کو اور بقیہ بچپن حصوں  میں سے ہر بیٹے کو دس حصے اور ہر بیٹی کو پانچ حصے دیے جائیں۔

اگر میت کی والدہ اپنے حصے سے دستبردار ہوچکی ہیں، تو اس کے گیارہ حصوں کو بھی مذکورہ حساب سے بیٹوں اور بیٹیوں میں تقسیم کردیا جائے، یعنی ہر بیٹے کو دو حصے اور ہر بیٹی کو ایک حصہ۔

4۔ دکانوں کا کرایہ بھی میت کی جائیداد ہی شمار ہوگا، جائیداد تقسیم کرتے ہوئے اسے بھی ترکے میں شمار کیا جائے۔ ہاں اب تک جو کرایہ خرچ ہوچکا ہے، اگر تمام ورثاء اتفاق رائے سے اس کا بطور وراثت مطالبہ نہیں کرتے،  تو پھر اس کرائے کو وراثت کی تقسیم میں شمار نہیں کیا جائے گا۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ